جموں کشمیر ریاست کا دائرہ ایک زمانے میں لکھن پور سے گلگت بلتستان تک پھیلا ہو اتھا ،جس کے اپنے راجہ مہارجہ ہوا کرتے تھے۔ برصغیر کی بدلتی صورتحال اور تقسیم ہند کی وجہ سے یہ ریاست بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام اس ریاست کے دونوں حصوں میں سیاستدانوںنے یہاں کے لوگوں کی تعمیر و ترقی اور عوام کی خوشحالی کی بجائے صرف اور صرف اپنے ارد گرد رہنے والے دوست و احباب کی ترقی اور خوشحالی کو ہی مدنظر رکھا ۔ سیاسی استحصال اور نا انصافی کی وجہ سے یہاں نہ صرف خون خرابہ اورتشددعام ہوا بلکہ لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم رہے۔تاریخ دانوں کی مانے تو یہاں کے سیاستدانوں نے اقتدار کی بھوک مٹانے کے لئے ہمیشہ عام لوگو ں کا استحصال کیا اورانہیں سیاسی جھمیلوںمیں گرفتار کر کے رکھ دیا۔
ملک کی دیگر ریاستوں کو دیکھنے کے بعد انسان کا دل و دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ ہمیں اندھیرے میں جان بوجھ کر رکھا جارہا ہے۔گزشتہ دنوں ہمیں” پریس انفارمیشن بیورو کشمیر“ (پی آئی بی کشمیر) کے دفتر کی بدولت سے تلنگانہ ریاست کے دارلخلافہ حیدر آباد دیکھنے کا موقع ملا۔ملک کی تاریخ میں اس شہر کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے ۔تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ اس شہر میں عام لوگوں کی خوشحالی دیکھ کر ہمیں رشک ہونے لگا، آخر کیوں جموں کشمیر خاصکر وادی میں شام ہوتے ہیں ،زندگی کی گاڑی رُک جاتی ہے جبکہ اس تاریخی شہر میں دن اوررات ایک ہی سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگ بغیر کسی خوف و ڈر کے دن رات کام کرکے آرام دہ زندگی گذارتے ہیں۔جموں کشمیر جو ملک کا سر اور تاج تصور کیا جاتا ہے ۔کیا وجہ ہے کہ اس ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنا پڑا ۔شاید اسی لئے یہاں کے حکمران صرف اپنے اقتدار اور عیش و عشرت کے حوالے سوچتے رہتے ہیں ،وہ اقتدار میں آنے کےلئے عوام کو گمراہ کرتے ہیں ،کبھی سبز رومال اور کبھی پاکستانی نمک لوگوں کو دکھا کرصرف اپنا الو سیدھا کرتے رہے ہیں۔جہاں تک موجودہ دور کا تعلق ہے ،آج دنیاایک گاﺅں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آج سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
حکمران چاہیں تو ا پنے عوام کو بہتر سے بہتر سہولیت فراہم کر سکتے ہیں۔لوگوں کی تعمیر و ترقی ،بہتر طرز زندگی اور خوشحالی کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ اُن میں سیاست سے زیادہ خدمت خلق کا جذبہ موجود ہو۔اُنہیں اپنی ذاتی خوا ہشات کا گلا گھونٹ دینا ہوگا۔جموں کشمیر جو اب ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے۔گذشتہ چند برسوں کے دوران یہاں بہت حد تک تبدیلی آچکی ہے ۔عام لوگوں نے جنگ و جدل اورتشدد سے نجات حاصل کیا ہے۔دس برسوں کے بعد لوگوں نے انتخابات میں حصہ لیکر اپنی حکومت کا قیام پھر ایک بار عمل میں لایا ہے ،تاکہ اُن کی مزید بہتری ہوسکے۔لیکن منتخب عوامی حکومت اور ایل جی انتظامیہ کے درمیان لفظی جنگ سے یہ اندیشہ ہو رہا ہے کہ بہتری کی بجائے حالات پھر سے خراب ہوں گے کیونکہ گزشتہ روز یوٹی فاﺅڈیشن ڈے کے موقعے پر منعقدہ تقریت میں مقامی سیاسی پارٹیوں کی عدم شرکت سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ دونوں کے درمیان ان بن ہے، جس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔لوگ تعمیر و ترقی اور خوشحالی ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح چاہتے ہیں جو شاید انکے نصیب میںنہیں ہیں۔یہاں کے حکمرانوں کو عوامی مشکلات، جذبات واحساسات کا خیال رکھ کر رسہ کشی ترک کرنی ہوگی تب جاکر یہ ممکن ہو پائے گا کہ ملک کے اس اہم خطے میں آباد لوگ دیگر ریاستوں کی طرح خوشحال زندگی بسر کر سکتے ہیں ،جو جینے کا اصل مقصد ہے۔
