مانیٹرنگ ڈیسک
شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان حکومت کی کونسل کا دو روزہ اجلاس منگل سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شروع ہو رہا ہے۔
15 اور 16 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں سات رکن ممالک کے وزرا اعظم، آبزرور رکن منگولیا کے وزیراعظم، ایران کے نائب صدر انڈیا کے وزیر خارجہ جبکہ ترکمانستان سے بھی خصوصی مہمان شریک ہوں گے۔ حکومتی سربراہان کی کونسلوں کی کرسی حروف تہجی کے حوالے سے دی جاتی ہے پاکستان کے بعد کرسی روس کے حوالے کی جائے گی۔ جبکہ ایس سی او سمٹ کی سربراہی پاکستان 2026 میں کرے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سمٹ اجلاس کا مینڈیٹ وسیع ہوتا ہے۔ جس میں ممالک کے سربراہان شریک ہوتے ہیں جبکہ اس سے قبل وزرا خارجہ کی بھی میٹنگ ہوتی ہے۔لیکن حکومتی سربراہان کی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم یا وزیر خارجہ شریک ہوتے ہیں اور اس کا مینڈیٹ محدود ہوتا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اتوار کی رات میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام مہمانوں کو ویلکم کرنے کے لیے تیار ہیں۔’انڈیا کی جانب سے ان کے وزیر خارجہ اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ ہر وزیر اعظم کے ساتھ 16 افراد اجلاس میں شریک ہوں گے۔ ہم اس اجلاس کو ہر ممکن کامیاب کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ کئی سالوں کے بعد اب جا کر اس قسم کا اجلاس پاکستان میں ہونے جا رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چین کے علاوہ تمام رکن ممالک کے وزار اعظم 15 اکتوبر کو پاکستان پہنچیں گے۔ دو سو کے قریب وفود ہوں گے جبکہ تمام ممالک کا میڈیا اور دیگر سٹاف اس کے علاوہ ہے۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کا ایجنڈا
شنگھائی تعاون تنظیم میں سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس کا ایجنڈا سماجی اقتصادی ثقافت اور انسانی بنیادوں پر ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق حکومتی سربراہان کی اس کونسل میں کوئی سیاسی بات نہیں کی جائے گی۔
سربراہان مملکت یعنی سمٹ کے اجلاس میں سیاسی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے لیکن حکومتی سربراہان کی کونسلیں رابطے اور عوام سے عوام کے رابطے پر تبادلہ خیال کرتی ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم میں سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس کا مینڈیٹ محدود ہے اسی لیے اسی پر ہی رہنا ہو گا۔ اس میں رکن ممالک کے مابین عوامی رابطے، ریل روڈز ، تجارت اور کلچرل رابطوں پر بات ہو گی۔‘
ان سے جب سوال کیا کہ’ تجارتی رابطوں کی بحالی کے لیے اس فورم کے زریعے کیا انڈیا سے بھی بات چیت کی جائے گی؟‘ تو انہوں نے کہا کہ ’یہ کثیر رکنی فورم ہے یہاں اور پاکستاب بحیثیت میزبان خود کسی ملک کو دو طرفہ ملاقات کا نہیں کہہ سکتا۔
’یہ آنے والے مہمان ممالک پر منحصر ہے جیسا کہ کچھ ممالک نے سائیڈ لائن میٹنگ کے لیے بھی وقت مانگا ہے۔’اسی وجہ سے چین کے وزیر اعظم کل پاکستان پہنچیں گے۔ روس کے وزیر اعظم نے بھی اجلاس کے علاوہ سائیڈ لائن میٹنگ کا ٹائم مانگا ہے۔‘
ایس سی او اجلاس کی سکیورٹی کے لیے انتظامات
آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے اپنے بیان میں بتایا کہ ’وینیوز،ایئر پورٹس، نور خان ایئر بیس سمیت روٹس اور فنل ایریاز، ہوٹلز اور وفود کی رہائش گاہوں پر سکیورٹی ڈیوٹیز کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سرچ اور انفارمیشن بیسڈ آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس کے ساتھ وزارت خارجہ، ضلعی انتظامیہ، پاکستان آرمی، رینجرز، ایف سی، دیگر صوبائی پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیاں، ٹریفک پولیس اور سپیشل برانچ کے افسران و جوان بھرپور سکیورٹی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’اسلام آباد پولیس کی 93 فیصد فورس بھرپور سکیورٹی انتظامات کے لیے تعینات کی گئی ہے۔ ایس سی او سمٹ 2024کی سکیورٹی کے لیے اسلام آباد پولیس کے نو ہزار سے زائد افسران و جوان اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔‘
دو روزہ اجلاس کے لیے اسلام آباد میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور 17 اکتوبر تک شہر کی سکیورٹی پاکستانی فوج کے حوالے کر دی گئی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی اور وسطی ایشیا میں پھیلی ایک بڑی بین علاقائی تنظیم ہے۔ جس کا باقاعدہ قیام سنہ 2001 میں ہوا۔اس سے قبل 1996 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پانچ رکن ممالک تھے جنہیں شنگھائی پانچ بھی کہا جاتا تھا۔
ابتدائی اراکین میں چین، روس، قازقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔ جب 2001 میں ازبکستان بھی شامل ہوا تو اس کا نام شنگھائی فائیو سے تبدیل کر کے ایس سی او رکھ لیا گیا۔کیونکہ اس وقت نائن الیون کے بعد سے شدت پسندی عروج پر تھی اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔
اس لیے ابتدا میں اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا تھا۔بعد ازاں رکن ممالک کے مابین سکیورٹی اور تجارتی تعلق مضبوط کرنا اور امن کا قیام کو بھی شامل کیا گیا۔سنہ 2017 میں اس کا اجلاس آستانہ میں ہوا جہاں انڈیا اور پاکستان کو بھی مستقل رکن کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل کیا گیا اور ایران مستقل رکن کے طور پر جولائی 2023 میں شامل ہوا ہے جبکہ بیلا روس رواں برس مستقل رکن بنا ہے جس کے بعد رکن ممالک کی تعداد اب دس ہو چکی ہے۔
افغانستان اور منگولیا مبصر رکن ممالک ہیں لیکن افغانستان کی مبصر رکنیت طالبان انتظامیہ کے قیام کے بعد سے غیر فعال ہے۔ اس کے علاوہ نیپال ترکی، آزربائیجان، ارمینیا، کمبوڈیا اور سری لنکا ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔
’جب کمرے میں انڈیا، پاکستان ہوں گے تو ماحول میں ہلکا سا تناؤ تو ہو گا‘

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف اجلاس کی سائیڈلائینز پر رکن ممالک کے وفود کے سربراہان سے ’اہم دو دوطرفہ ملاقاتیں‘ کریں گے۔ مگر انڈیا کے وزیر خارجہ نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ دو طرفہ معاملات پر بات چیت کرنے نہیں آ رہے۔
اگرچہ دو طرفہ امور پر بات چیت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر میں شامل نہیں، تاہم تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ رکن ممالک کے پاس یہ موقع ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں اور بات چیت کا دروازہ کھولیں۔
سوہاسینی حیدر کے مطابق ایک وقت تھا ’جب انڈین اور پاکستانی رہنماؤں کی ملاقاتیں بھی اس فورم پر ہوتی رہی ہیں، اور پھر دو طرفہ بات چیت کے موقع ملتا رہا۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ حالیہ برسوں میں، یہ فورم انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔‘
عامر ضیا کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی وجہ سے اس اجلاس کے ماحول میں ’ہلکا سا تناؤ‘ رہ سکتا ہے۔
’جب دہشت گردی کی بات ہو گی تو انڈیا پاکستان پر الزام لگائے گا اور پاکستان بلوچستان کے حوالے سے انڈیا پر الزام لگائے گا۔ اور مجھے فی الحال ان دونوں ملکوں میں تجارت اور دیگر شعبوں میں بھی تعاون ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔ جب کمرے میں انڈیا اور پاکستان ہوں گے تو ماحول میں ہلکا سا تناو تو ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر پاکستان کے لیے اس وقت تعلقات میں بہتری ایک ’رسک‘ ہو سکتی ہے:’ہو سکتا ہے کہ یہاں طاقت کے ایوانوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی خواہش ہو، مگر کشمیر کے معاملے میں 2019 کے بعد ایسے کسی بھی کمپرومائز کا پاکستان کو نقصان ہوگا اور اس کا فال آؤٹ پاکستان کی سیاست اور فوج کے لیے کافی زیادہ ہوگا۔‘
ان کے مطابق انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا سوچنے سے پہلے پاکستان کو اپنی معاشی اور سیاسی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔’جب تک پاکستان ایک مضبوط ملک کے طور پر سامنے نہیں آئے گا تب تک وہ برابری کی سطح پر بات نہیں کر سکتا۔‘
اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم اپنی متعدد ناکامیوں اور داخلی کمزوریوں کے باوجود خطے میں تجارت، توانائی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فوجی تعاون کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کی یہ رائے بھی ہے کہ رکن ممالک کے آپسی اختلافات اور محدود فوجی تعاون جیسے عوامل اسے ایک مضبوط عالمی فورم بننے سے روکتے ہیں۔
عامر ضیا جیسے تجزیہ کار پر امید ہیں اور کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی سفارتکاری ٹی ٹوینٹی میچ نہیں اور یہ تنظیمیں آہستگی کے ساتھ کام کرتی ہیں‘، مگر ایران سے تجزیہ کار زہرہ زیدی اب ’عملی اقدامات‘ ناگزیر سمجھتی ہیں۔’اگر کھل کر تعاون نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے تو یہ بھی دیگر بے سود تنظیموں کی طرح محض ایک نام کی تنظیم رہ جائے گی۔‘