ہفتہ, ستمبر ۶, ۲۰۲۵
27.2 C
Srinagar

آفات اور درد کا احساس ۔۔۔۔۔۔

قدرتی آفتوں کے سامنے انسان بے بس ہوتا ہے اور اُس کے سامنے صبر کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے۔ہم ہمیشہ عام لوگوںکو باخبر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرنے سے ماحول اثر انداز ہو رہا ہے اور مختلف قدرتی آفات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔سوموار کی شام ضلع کولگام میں طوفانی ہوائیں چلیں اور زبردست ژالہ باری ہوئی، جس سے نہ صرف ان علاقوں میں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچاہے بلکہ یہاں موجود باغ مالکان کا 80فیصد میوہ پوری طرح گر کر تباہ ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے جن میں میوہ دار درخت بھی شامل ہیں۔اس تباہ کُن قدرتی آفت کے بعد کولگام کے علاقوں میںکہرام مچ گیا،باغ مالکان خون کے آنسو رو رہے تھے۔اس درد کا احساس صرف اُن لوگوں کو بخوبی ہو گا،جو خود میوہ صنعت سے وابستہ ہیں ۔ایک درخت کو صحت مند اور پھل دار بنانے میں کتنی محنت لگتی ہے، یہ کسان لوگ ہی بہتر ڈھنگ سے جانتے ہیں۔سرکار نے کئی برس قبل کسانوں کے لئے ایک انشورنس اسکیم کا اعلان کیا تھا لیکن اس اسکیم کا بعد میں کیا ہوا کسی کو معلوم نہیں۔جہاں تک مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کا تعلق ہے، انہوں نے اس خطرناک طوفان کے بعد مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر کسانوں کو ہوئے نقصان کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا اور اُن کے ساتھ مصیبت کی اس گھڑی میں شریک رہنے کا وعدہ کیا۔جہاں تک حکام کا تعلق ہے کئی سرکاری افسران طوفان کے فوراً بعد مختلف علاقوں میں پہنچ گئے اور نقصانات کاجائزہ لیا جو کہ ایک اچھی بات ہے ۔لیکن صرف معائینہ کرنے یا افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ عملی طور لوگوں کی مالی معاونت اور امداد وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تاکہ کسانوں کے نقصان کی کسی حد تک بھرپائی ہو سکے۔ہم نے دیکھا ہے کہ 2014کے قہر انگیز سیلاب کے دوران صرف اثرو رسوخ رکھنے والے لوگوں کو ہی حد سے زیادہ معاوضہ دیا گیا جبکہ مستحق اور ضرورت مند افراد یہاں پر بھی ناانصافی کا شکار ہو گئے ۔مرکزی سرکار کی جانب سے فراہم کی گئی ریلیف میں بندربانٹ ہوئی اور ابھی بھیکچھ لوگ امداد سے محروم ہیں۔کچھ لوگوں کو امداد کی پہلی قسط واگزار کی گئی اور دوسری قسط دینے کی سرکار نے یقین دہانی کرائی تھی لیکن پھر سرکارتبدیل ہو گئی اور آج تک دوسری قسط واگزار نہیں ہو سکی، جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔اب جب کہ آج سیاستدانوں اور نام نہاد عہدیداروں کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے بلکہ ساری انتظامیہ کی نگرانی ایل جی صاحب خودکر رہے ہیں ۔انہیں جتنا جلد ممکن ہو سکے کسانوں کو امداد فراہم کرنی چاہئے اور اس حوالے سے انتخابات یا انتخابی ضابطہ اخلاق آڑے نہیں آنی چاہیے جبکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا سے اس معاملے کو اٹھانا چاہیے۔جہاں تک سیاسی جماعتوںاور امداد کرنے والے اداروں کا تعلق ہے، انہیں کسانوں کو امداد فراہم کرنے کی اجازت دی جانی چا ہیے نہ کہ اس میں کسی قسم کی دیر کرنی چاہئے کیونکہ آج تک دیکھا گیا ہے کہ نئی بات صرف نو دنوں تک یاد رہ جاتی ہے ،پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ویسے بھی آج کل انتخابی کا موسم ہے ،سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھ جائے گا کسی کو معلوم نہیں ۔لہٰذا ایل جی صاحب کو ہی اس حوالے سے اقدامات اُٹھانے چاہیے تاکہ نقصان زدہ کسان انتخابات کے نذر نہ ہوں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img