قانون ساز اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی پورے جموں کشمیر میں سیاسی اتھل پتھل مچ گئی ہے اور سیاسی لیڈران اپنی جماعتوں سے راہ فرار اختیار کرکے دوسری جماعتوں میں منڈیٹ حاصل کرنے کی غرض سے جا رہے ہیں ۔10سال بعد ہورہے ان انتخابات میں کس سیاسی جماعت کو عوام اپنا ووٹ اور سپورٹ دے گی، یہ آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ادھر کانگریس کے صدر ملکا ارجن کھرگے اور کانگریس سینئرلیڈرراہول گاندھی جموں کشمیر کے دو روزہ دورے پر ہیں ۔انہوں نے جموں وکشمیرکانگریس قیادت سے ملاقات کی اور موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ سے متعلق بات کی۔ با وثوق ذرائع سے معلوم ہو ا ہے کہ پی ڈی پی لیڈر شپ کے ساتھ بھی کانگریس قیادت رابطے میں ہے تاکہ کسی بھی طرح بی جے پی اوراُن کی ہم خیال پارٹیوں کو منصب ِاقتدار سے دور رکھا جائے۔بہر حال جموں کشمیر میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے کا چند روز کے اندر اندر صورتحال صاف ہو جائے گی۔جہاں تک انتخابی گٹھ جوڑ کا تعلق ہے ،یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کے کرنے سے پارٹیوں کے بہت سے لیڈران ناراض ہو سکتے ہیں اور بہت سارے لیڈران پارٹیوں کے خلاف بغاوت بھی شروع کرسکتے ہیں۔اس تمام صورتحال کے پیش نظر مقامی پارٹیاں انتہائی دور اندیشی سے کام لیکر قدم اُٹھائیں گی۔جہاں تک جموں کشمیر یو ٹی میں ہو رہے موجودہ انتخابات کا تعلق ہے، یہ اس لئے بھی اہم ہیں کیونکہ ان میں بی جے پی ،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس کے علاوہ اپنی پارٹی ،عوامی اتحاد پارٹی،پیپلز کانفرنس اور غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک پروگریسوآزاد پارٹی بھی علیحدہ طور اپنے اُمید وار میدان میں اتار رہی ہے ۔
ان چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا انتہائی اہم رول بن سکتا ہے ،اگر وہ 10سے 15سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں پھر بی جے پی حکومت بنانے کے لئے زور آزمائی کر سکتی ہے کیونکہ جموں میں بی جے پی کو اچھا خاصہ اثر ورسوخ اور ووٹ بنک ہے جس کا اندازہ گذشتہ ہوئے پارلیمانی انتخابات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ایک بات طے ہے جموں کشمیر یو ٹی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثرت نہیں ملنے والی ہے کیونکہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں، پی ڈی پی ،نیشنل کانفرنس اور کانگریس جیسی بڑی پارٹیوں کو نقصان سے دو چار کرسکتی ہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہورہی ہے کہ جموں کشمیر میں ملی جُلی سرکار وجود میں آسکتی ہے، لیکن برسراقتدار پارٹیاں اپنا منشور عملی طور پورا نہیں کر سکتی ہیں، سوائے بی جے پی کے جو فی الحال مرکز میں برسراقتدار ہیں ۔ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بڑی پارٹیاں سوچ سمجھ کر کوئی بھی فیصلہ لے سکتی ہیں۔ خاصکر سیٹوں کی تقسیم پر۔دیکھنایہ ہے کہ کون سی پارٹی قیادت لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔ووٹروں میں بھی ابھی کوئی جوش و خروش دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے کیونکہ انہیں ہمیشہ سبز باغ دکھائے گئے ،عملی طور عوام کے جذبات ،احساسات اور مسائل حل کرنے میں کسی بھی پارٹی نے دلچسپی نہیں دکھائی ۔سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ انتخاب آزمائش کی گھڑی ہے لہٰذا انہیں اب کی بار جملہ بازی سے پرہیز کرنا چاہئے اور وہیں باتیں کرنی چاہئے جو قابل عمل اورحاصل کرنا ممکن ہو۔