وادی کشمیر میں سماجی بدعات کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ نہ انتظامیہ کے پاس نظر آرہا ہے، نہ ہی سماج کے ذی حس طبقے کے پاس ہے۔ اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پالیسی عملائی نہیں جارہی ہے۔سماج میں جہاں تیزی سے پھیل رہی بے راہ روی،نشہ آور چیزوں کا بے ہنگم استعمال اور شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچے، اس بات کی بھر پور عکاسی ہے کہ ہمارا سماج پوری طرح سے کھوکھلا ہو چکا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے ہر معاملے میں سبقت لینے کے لئے اپنی زمین جائیدادیں بھیج دیتے ہیں اور دیکھا دیکھی کے عالم میں وہ سب حدود پار کر لیتے ہیں جن سے انسانیت کا خاتمہ ہو رہا ہے اور ذی حس انسان تماشائی بن کر ہاتھوں پر ہاتھ درے یہ سوچ کر رہتا ہے کہ وہ خود ان چیزوں سے محفوظ ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب سماج میں کسی بھی قسم کا غلط عنصر داخل ہو تا ہے، اُس سے سارے سماج کو نقصان پہنچتا ہے اور کوئی بھی انسان اس تباہی سے پھر محفوظ نہیں رہ سکتاہے۔
ایک وقت تھا جب وادی میں چند سو لوگ ڈرگ کا استعمال کررہے تھے اور باقی یہ کہہ کر تماشا دیکھتے تھے کہ اُن کے بچے ،دوست و احباب اس بُری لت سے دور ہیں۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ڈرگ جیسی وباءپوری وادی میں آگ کی طرح پھیلتی گئی اور آج ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد اس لعنت میں گرفتار ہے۔اعداد و شمار کے مطابق وادی میں ڈرگ کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کر گئی جوہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ایل جی انتظامیہ اور پولیس نے اگر چہ وادی میں درجنوں ڈرگ اسمگلروں کو ابھی تک گرفتار کیا اور کئی افراد کی زمین جائدادیں بھی ضبط کی ہیں۔ تاہم پھر بھی ڈرگ کا پھیلاﺅ بڑی تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے اور وادی کے اکثر گھرانوں کے چشم و چراغ اس کی لپیٹ میں آکر یا تو گُل ہو جاتے ہیںیا پھر انسانیت کی روشنی سے محروم ہو رہے ہیں۔جہاں تک علماءدین اور ایماءمساجد کا تعلق ہے وہ ہر جمعہ کو اس سلسلے میں زور دار واعظ وتبلیغ کرتے ہیں لیکن نتیجہ نداراد۔جہاں تک شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی کا تعلق ہے، اس میں بھی روز نئی ایجاد کی جارہی ہے۔
قسم قسم کے پکوان،طرح طرح کی مٹھایاں ،قیمتی مشروبات اور مختلف قسم کے ڈرائی فروٹ مہمانوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں اور تمام کی تمام چیزیں قیمتی بیگوں میں بھر دیئے جاتے ہیں۔جہاں تک غریب اور بے سہارا لڑکیوں کا تعلق ہے ، وہ یہ سب کچھ دیکھ کر شادی کرنے سے یہ سوچ کر انکار کرتی ہیں کہ اُن کے والدین یہ سب کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔وادی میں ہزاروں کی تعداد میں غریب لڑکیاں بغیر شادی کیہیں اور اس وجہ سے نہ صرف بے راہ روی کے پھیلاﺅ میں اضافہ وہو رہا ہے، بلکہ اُن گھرانوں کے دروازوں پربھی تباہی دستک دیتی ہے ،جو اپنے بچوں کی خوشحال ازدواجی زندگی بنانے کے لئے شادی بیاہ کے دوران فضول خرچی کرتے ہیں۔غرض سماج میں ہر جانب تباہی ہی تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو کھڑا ہونا چاہئے، اپنے اپنے علاقوں میں اس طرح سے ہو رہی تباہی کا تماشہ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ایسے افراد کے خلاف کھڑا ہو نا چاہئے اور کسی بھی بُرائی کو دیکھ کر پولیس کا ساتھ دینا چاہئے ،جو فی الحال ڈرگ مافیا کے خلاف بر سرِ جنگ ہے ۔اس بارے میں مساجد کی انتظامیہ کمیٹیاں اور ایماءمساجد اہم رول ادا کر سکتے ہیںجو، فی الحال خواب ِخرگوش میں ہیں۔