جموں کشمیر میں اسمبلی انتخاب منعقد کرانے کی بازگشت روز بروز تیز ہوتی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں چند روز کے اندر اندر انتخابی کمیشن کی ایک ٹیم جموں کشمیر کے دورہ پر آرہی ہے اور یہ ٹیم سیاسی پارٹیوں کے لیڈران،سیکیورٹی اداروں کے ذمہ داراں اور انتظامی افسران کے ساتھ اس حوالے سے ملاقات کریں گے اور اُس کے بعد ہی حتمی فیصلہ لیا جائے گا کہ کب اورکس طرح جموں کشمیرمیںاسمبلی کے انتخابات منعقد کئے جائینگے۔ادھر جموں کشمیر کی سیاسی پارٹیوں میں بھی پھیر بدل جاری ہے ۔مختلف سیاسی لیڈارن اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کردوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔جموں کشمیر میں طویل مدت کے بعد اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں اس بیچ تمام پارٹیوں کے لیڈارن کا دعویٰ ہے کہ وہ بڑی جیت درج کریں گے۔نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے لیڈاران اور سابق وزراءاعلیٰ عمرعبدللہ اور محبوبہ مفتی نے دفعہ 370کے خاتمے کے بعد یہ اعلان کیا تھا، وہ اُس وقت تک ہرگز انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے جب تک جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس نہیں دیا جاتا ہے ۔ یہ دونوں لیڈارن اپنی بات پر اٹل رہیںگے یاپھر عوام کے مزاج کے مطابق پُرانی باتیں بھول جائیں گے ۔
ادھر بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری اور جموں کشمیر کے انچارج شری ترون چگ کا دعویٰ ہے کہ اُن کی پارٹی انتخابات میں بڑی جیت درج کرے گی ۔اپنی پارٹی میں سے کئی سیاسی لیڈاران نے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کی ہے کہ اس پارٹی کو بی جے پی کا آشرواد حاصل ہے۔جہاں تک جموں کشمیر کی سیاست کا تعلق ہے ،یہاں اُسی پارٹی نے ہمیشہ انتخابات میں میدان مار لیا ہے جس کو مرکزی حکومت کا آشر واد حاصل رہا ہے یا جس نے عوامی جذبات کو مدنظر رکھ کر اُن کی ترجمانی کا نعرہ بُلند کیا اور اس طرح ووٹ حاصل کئے اور حکومت کی ، جس کی تازہ مثال عوامی اتحاد پارٹی ہے، جس کے لیڈر نے جیل کی کال کوٹھری سے حالیہ ہوئے پارلیمانی انتخابات میں اچھے ووٹ لیکر عمر عبدللہ اور سجادغنی لون جیسے لیڈارن کو مات دی۔ ۔ایک زمانہ تھا جب نیشنل کانفرنس کے لیڈران عوامی اجتماعات میں کھلے عام اس طرح کے جذباتی تقاریر کرتے تھے ۔ اگر دفعہ 370اور جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی گئی ،تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی وہ ہمیشہ ا س دفعہ کو ماں بہن کی عزت سے تعبیر کرتے تھے ۔کبھی نیا کشمیر اور کبھی اندرونی خود مختاری کا نعرہ بھی بُلند کرتے رہے۔اسی طرح پی ڈی پی کے لیڈران کا یہ کہنا ہوتا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل بندوق سے نہیں بلکہ صندوق سے نکل سکتا ہے اور انہوں نے ایک وقت کے دوران اپنی الگ کرنسی بنانے کا اعلان بھی کیا تھا اور سیلف رول کا خاکہ بھی مرکزی حکومت کے سامنے پیش کیا تھا۔پی سی نے بھی ویژن ڈاکیومنٹ جاری کیا تھا اور لوگوں سے اس بنا پر منڈیٹ طلب کیا تھا۔
جہاں تک نو زائد اپنی پارٹی کا تعلق ہے، اسکے سربراہ ہمیشہ سے اس بات پر اٹل تھے کہ جھوٹ بولنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ ہمیں سچائی کا سامنا کرنا ہو گا اور اپنی سیاسی تقدیر ملک کے ساتھ جڑ جانے کے بعد لوگوں کی تعمیر و ترقی اور خوشحال کے لئے کام کرنا ہوگا، لیکن اُن کی یہ بات بھی لوگوں کو پسند نہیں آئی۔جہاں تک علحیدگی پسندوں کا تعلق ہے وہ خاموش ہو چکے ہیں اور اپنی غلطیوں پرنادم ہیں ۔ ان حالات میں کس پارٹی کواکثریت ملے گی اور ان پارٹیوں کا منشور کیا ہو گا اور لوگ ان انتخابات میں کتنی دلچسپی کا مظاہر دکھائیںگے؟ یہ اہم سوالات ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ انتخابات ہونے کی صورت میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی اور کچھ نئے چہرے سیاسی افق پر نظر آئیں گے جن کا نئی حکومت بنانے میں اہم رول ہوگا ،اگر مرکزی حکومت اور ملک کا انتخابی کمیشن انتخابات کرانے پر متفق ہوتا ہے۔تاہم جموں کشمیر کے عوام انتخابات کرانے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھارہے ہیں ،ماسوائے سیاستدان۔
