وادی میں شدید گرمی کی وجہ سے لوگ مشکلات سے دو چار ہو رہے ہیں۔پینے کے پانی کی کمی اور بجلی کی آواجاہی سے شہری علاقوں میں ہاہاکار مچ گئی ہے۔گزشتہ روز وادی کے دارلخلافہ سرینگر میں 35.6 ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ، جو رواں برس اب تک کاگرم ترین دن درج ہواہے۔ماہرین گرمی کی شدت کو موسمی تبدیلی کے ساتھ جوڑ ا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ آنے والے وقت میںاس سے بھی زیادہ موسمی تبدیلی ہو سکتی ہے کیونکہ لوگوں نے خود ہی قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے گلوبل وارمنگ کو جنم دیا ہے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دواران وادی میں نہ صرف جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی بلکہ زرعی زمین پر مکانات،ہوٹل اور شاپنگ کمپلیکس تعمیر کئے گئے۔پہاڑوں کو کھودا گیا،آبی ذخیرے ختم کئے گئے ،یہاں بستیاں تعمیر کی گئیں،ٹریفک میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے،ندی نالوں کو پُر کیا گیا۔جھیل آنچار،ولر اور ڈل کی مثالیںہمارے سامنے ہیں ،جہاں رات کی تاریخی میں تعمیراتی کام ہو رہے ہیں ۔ہر جانب گندگی اور غلاظت پھیلائی گئی جس سے ماحول بے حد متاثر ہو چکا ہے۔
آبادی والے علاقوں میں گرمی تو رہتی ہے لیکن اب جنگلات میں بھی شدید گرمی محسوس ہورہی ہے ۔گلوبل وارمنگ اگر چہ عالمی سطح پر ایک بہت بڑا چیلنج ہے تاہم وادی کشمیر کسی حد تک اس پریشانی سے محفوظ تھی۔لیکن یہاں کے عوام نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے اور اس سلسلے میں مختلف سرکاری عہدوں پر تعینات افسران نے بھی لوگوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی، جس کا خمیازہ آج پورے قوم کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔موسمی ماہرین کا ماننا ہے کہ اب وادی میں بھی آفات سماوی کا خطرہ درپیش ہے۔ایک طرف شدید گرمی تو دوسری جانب محکمہ موسمیات نے سیلابی وارنگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب کئی روز تک تیز اور موسلادھار بارشیں ہونے کا امکان ہے۔اس حوالے سے صوبائی انتظامیہ نے ایک ہنگامی میٹنگ بُلا کر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتظامی افسران کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔
وادی جسے ایک زمانے میں زمین پر جنت ماننا جاتاتھا،اب موسمی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کی شکار ہو چکی ہے جس کے مضر اثرات سے نہ صرف اہل وادی پریشان ہو رہے ہیں بلکہ سیر پر آ رہے بیرونی ریاستوں کے لاکھوں سیاح بھی ذہنی طور فکر مند ہو رہے ہیں۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اب تک ہوئی تباہی کا کوئی کچھ نہیںکرسکتا ہے لیکن آگے خیال رکھنا ضروری ہے۔کسی بھی عام یا خاص فرد کو زرعی اراضی پر کسی بھی قسم کی تعمیر کھڑا کرنے یا آبی ذخیروں کو پُر کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔جنگلات کی حفاظت کرنی چاہیےاور زیادہ سے زیادہ پیڑ پودے لگانے کی مُہم جاری رکھنی چاہیے۔شہر اور قصبہ جات میں ٹریفک کی کمی کے لئے دلی کے طرز پر طاق وجفت کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مسلسل ہو رہی موسمی تبدیلی سے نجات مل سکے۔