امن کے لئے اعتماد سازی نا گزیر ۔۔۔۔۔۔۔

امن کے لئے اعتماد سازی نا گزیر ۔۔۔۔۔۔۔

ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں بھی پارلیمانی انتخابات کے چھٹے مرحلے کے تحت ووٹ ڈالے گئے ۔جموں وکشمیر میں چھٹے اور آخری مرحلے کے تحت انتہائی حساس پارلیمانی نشست اننت ناگ ۔راجوری کے لئے ووٹ ڈالے گئے ۔سرینگر اور بارہمولہ پارلیمانی حلقوں کی طرح صبح سے ہی اننت ناگ ۔راجوری پارلیمانی حلقے میں بھی پولنگ مرکز پر لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں ۔1987کے بعد وادی میں اس طرح کی بھاری پولنگ پہلی بار دیکھنے کو ملی جو کہ جمہوری عمل میں ایک مثبت قدم مانا جارہا ہے۔

اس سے قبل سرینگر اور بارہمولہ نشستوں پر بھی اچھی خاصی پولنگ ہوئی جس پر نہ صرف ملک کے انتخابی کمیشن نے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے بلکہ ملک کے وزیر اعظم نریندرا مودی نے بھی یہ کہہ کر جموں کشمیر کے عوام کو مبارک پیش کی ہے کہ انہوں نے اب جمہوری عمل پر یقین کرتے ہوئے ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔یہاں یہ بات کہنا بے حدلازمی ہے کہ ان انتخابات میں تین دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ علحیدگی پسندوں نے بھی شرکت کی اور انہوں نے کھل کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ جماعت اسلامیہ کے نمائندوں نے میڈیا کے سامنے ان باتوں کا اظہار کیا کہ اگر سرکار ان پر لگی پابندی ہٹاتی ہے تو وہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور جماعت اسلامی اپنے اُمید وار میدان میں اُتارے گی۔بہر حال جہاں ایک طرف یہ صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے ،وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پی ڈی پی کی صدر اور انت ناگ پارلیمانی نشست کی اُمیدوار محبوبہ مفتی نے ووٹنگ کے دوران صبح سویرے اپنے آبائی علاقے بجبہاڈہ میں یہ کہہ کر دھرنا دیا کہ اُن کے پولنگ ایجنٹوں او ورکروں کو رات کی تاریکی کے دوران گرفتار کیا گیا۔محبوبہ مفتی کا یہ الزام کہاں تک صیح ہے کہ صرف اُن ہی کے ورکروں اور پولنگ ایجنٹوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، اس کا جوب دیتے ہوئے پولیس سربراہ آر آر سوئن نے کہا کہ پولیس کا کام ہے کہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد ہو، لہٰذا چند ایک جگہوں پر ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کا سابقہ ریکارڑ اچھا نہیں ہے اور سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر بعض افراد کو احتیاطی حراست میں رکھا گیا۔

باریک بینی سے دیکھا جائے تو وادی کے ہزاروںلوگوں کے بارے میں اس طرح کی شکایتیں سرکاری ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں، جو کسی نہ کسی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل تھے، لیکن حالات بدلتے ہی ان لوگوں نے بھی توبہ کر کے قومی دھارے میں شمولیت اختیار کی اور انہوں نے جمہوری عمل میں حصہ لیا یا حصہ لینا چاہتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی گوش گذار کرنا لازمی ہے کہ درجنوں ملی ٹینٹ کمانڈر مین اسٹریم سیاست میں آگئے ، جن میں چند ایک اسمبلی ممبر یا ایم ایل سی بھی بن گئے۔جموں کشمیر میںجمہوریت کو فعال اور مضبوط بنانے کے لئے اُن تمام لوگوں کو رہا کرنا چاہیے، جو خطر ناک جرائم میں ملوث نہیں ہیں ۔اس عمل سے نہ صرف وادی میں پوری طرح امن قائم ہوگا بلکہ جموریت کا سایہ داردرخت بھی بہتر ڈھنگ سے پھل پھول سکتا ہے جو ہر ایک وطن پرست کی آرزو و تمنا ہے۔جس کے لئے ملک کے حکمرانوں ،پالیسی سازوں اور حفاظتی اداروں نے بے حد محنت کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.