سب سے سستی اور بے قیمت چیز وقت۔۔۔

سب سے سستی اور بے قیمت چیز وقت۔۔۔

بقول شاعر ”سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں،گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں“۔وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پر سمجھ نہیں ہوتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا ۔وقت گہرے سمندر میں گرا ہوا وہ موتی ہے جس کا دوبارہ ملنا نا ممکن ہے۔ ہماری زندگی میں وقت کی بہت اہمیت ہے اور ہمیں اسے اہمیت دینی بھی چاہیے کیونکہ وقت کا چوکا ہوا انسان زیادہ تر نا کام ہی رہتا ہے۔ وقت بہت طاقت ور ہوتا ہے ایک لمحہ میں سب کچھ آباد بھی کر دیتا ہے اور برباد بھی۔اہل دانش کہتے ہیں کہ وقت ایک گراں مایہ دولت ہے اور یہ دولت تقاضا کرتی ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر انسان کی سستی یا بے پرواہی سے وقت ہاتھ سے نکل گیا تو یہ واپس نہیں آتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی وکامرانی ہمیشہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو وقت شناس اور اسکے قدردان ہوتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرنے اور خیالی پلاو¿ پکانے میں مگن رہنے والوں کے خیالوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی اور نہ وقت کے ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔
فارسی کا مشہور مقولہ ہے’ ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا۔در حقیقت یہ ہے کہ وقت برق رفتار ہوتا ہے اور گزار ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا اور نہ ہی اس کا کوئی بدل ہوتا ہے اس لئے یہ انسان کی سب سے قیمتی متاع ہے۔جو لوگ وقت ضائع کر دیتے ہیں وہ دین و دنیا دونوں اعتبار سے خسارے میں رہتے ہیں۔آج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز وقت کو سمجھا جاتا ہے۔ اسکی قدروقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں۔ جس نے وقت ضائع کر دیا اس نے سب کچھ ضائع کر دیا۔‘ہم نے سنہ 2023میں قدم کب رکھا اورکس طرح یہ ہم سے رخصت ہوا ،ایسا لگتا ہے بس ابھی ہم نے پلکیں جھکا دیں ۔یہ سال ماضی کی طرح اپنے پیچھےکھٹی میٹھی یادیںچھوڑ گیا ۔اور ہم اب سنہ2024میں قدم رکھ چکے ہیں بلکہ ابتدائی تین ماہ بھی ختم ہوچکے ہیں ۔
وقت دولت سے بھی بڑھکر قیمتی شے ہے۔اگر دولت ضائع ہو جائے تو دوبارہ بھی مل سکتی ہے مگر ضائع شدہ وقت کبھی واپس نہیں مل سکتا۔ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ زندگی کے تمام معاملات اپنے صحیح اور مناسب وقت پر انجام دے لینا چاہیئے کیونکہ وقت گزر جائے گا اور ہم وہیں کھڑے رہ جائیں گے۔ عموماً وقت کو بہت ظالم کہا جاتا ہے کیونکہ وقت کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وہ ہر لمحہ ہر پل بس گزرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے ساتھ بہت کچھ لے بھی جاتا ہے اور چھوڑ بھی جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں نو جوانوں کے قیمتی اوقات کے ضائع ہونے کا ایک بڑا سبب موبائل فون بنا ہوا ہے۔ اس کے ذریعے پیغامات بھیجنے اور اس کے پروگراموں میں وقت گزاری کرنے کا ایک عام مزاج بن گیا ہے، گھنٹوں اس میں ضائع کر دینا، راتوں کو خراب کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ کبھی اس طرف خیال نہیں جاتا کہ میرا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ آج کا نو جوان موبائل کو لے کر ایک مجنونانہ کیفیت کا شکار ہو چکا ہے اور اس کے منفی اثرات سے پوری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ نوجوان نسل کیساتھ ساتھ ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت ،بزرگ ہو یا نو نہال ،ہر ایک کو وقت کی قدر کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.