بورڈ آف سکول ایجوکیشن پھر ناکام یا سازش؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔

بورڈ آف سکول ایجوکیشن پھر ناکام یا سازش؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔

جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے تحت جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے نصابی کتب تجویز کرنے کے اختیار کو برقرار رکھا ہے۔جسٹس سنجے دھر نے جموں وکشمیر پرائیویٹ اسکولز یونائیٹڈ فرنٹ کی طرف سے دائر کردہ عرضی کو مسترد کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کے ساتھ الحاق شدہ اسکولوں کے لئے بورڈ کی تجویز کردہ نصابی کتب کے استعمال کو لازمی قرار دے۔عدالت نے کہاتھا کہ’نہ ہی پرائیویٹ اسکولوں اور نہ ہی پبلشروں کو یہ حق ہے کہ وہ بورڈ کو پرائیویٹ پبلشروں کی شائع کردہ نصابی کتاب تجویز کرنے پر مجبور کریں‘۔جموں و کشمیر پرائیویٹ اسکولز یونائیٹڈ فرنٹ نے26 اگست 2022 کو جاری کردہ ایک سرکاری نوٹیفکیشن کو چلینج کیا تھا جس میں تمام پرائیویٹ اسکولوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پہلے مرحلے میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی شائع کردہ نصابی کتب استعمال کریں۔عرضی گزار نے استدلال کیا تھا کہ اگرچہ بورڈ کو نصابی کتب تجویز کرنے کا اختیار حاصل ہے، تاہم یہ قاعدہ اسکولوں کے لئے بورڈ کی تجویز کردہ نصابی کتب استعمال کرنے کو لازمی نہیں بناتا ہے۔
جواب دہندہ بورڈ نے اپنے جواب میں کہا تھاکہ ’پہلی سے بارہویں جماعت تک نصاب، نصابی کتاب اور سلیبس تیار کرنا بورڈ کے حد اختیار میں ہے، نیز 1975 ایکٹ کے دفعات کے تحت بورڈ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ حکومت کو ابتدائی تعلیم اور سینئر سکینڈری تعلیم کے متعلق پالیسی کے معاملات پر مشورہ دے سکتا ہے۔سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ بورڈ کو جموں اور سرینگر کے صوبائی دفاتر پر ایک بہترین کریکیولم ڈیولپمنٹ اور ریسرچ ونگ قائم ہے، جہاں مستقل اور قابل عملہ تعینات ہے جو اس کام کو بخوبی انجام دے رہے ہیں۔سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ نوٹیفکیشن جاری کرتے وقت قانون کے منڈیٹ کی پیروی کی گئی اور مذکورہ نوٹیفکیشن کو مجاز اتھارٹی کی منظوری حاصل ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ درخواست گذار کمرشلائزیشن میں دلچسپی رکھتا ہے، جبکہ بورڈ کی کوشش طلبہ کو فائدہ پہنچانا ہے تاکہ ان کو کم قیمت کی کتابیں مہیا کی جاسکیں۔دونوں فریقوں کو سننے کے بعد عدالت عالیہ کے جج جسٹس سنجے دھر نے اپنے فیصلے میں کہا تھاکہ یہ بات واضح ہے کہ بورڈ کو نصابی کتابیں لکھنے کا قانونی اختیار حاصل ہے اور ان کتابوں کی اشاعت کا بھی اختیار ہے۔عدالت نے کہا تھاکہ جموں و کشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کے ساتھ الحاق شدہ اسکولوں کے لئے بورڈ کی تجویز کردہ نصابی کتاب کے استعمال کو لازمی قرار دے اور نہ ہی پرائیویٹ اسکولوں اور نہ ہی پبلشروں کو یہ حق ہے کہ وہ بورڈ کو پرائیویٹ پبلشروں کی شائع کردہ نصابی کتاب تجویز کرنے پر مجبور کریں۔عدالت نے یہ ریمارکس دئے کہ درخواست گذار کے وکیل کا یہ استدلال کہ نوٹیفکیشن مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر جاری کی گئی ہے، کا کوئی میرٹ نہیں ہے۔جسٹس دھر نے کہا تھاکہ’مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر مجھے اس رٹ پٹیشن میں کوئی میرٹ نظر نہیں آرہا ہے لہٰذا اس کو منسوخ کیا جاتا ہے‘۔
عدالت عالیہ کا یہ فیصلے عام طلبہ اور والدین کے حق میں ہے ،جنہیں پرائیو یٹ پبلشروں سے کتابیں خرید نے میں زر ِ کثیر ادا کرنی پڑتی ہے ۔بورڈ کی جانب سے شائع کردہ کتابوں سے نہ صرف سرکاری اسکولوں سے لیکر پرائیویٹ اسکولوں تک پڑھائی کا عمل یکساں بنیاد پر رہے گا ،بلکہ پرائیویٹ اسکولوں کی من مانیاں بھی دم توڑ جائیں گی ۔تاہم بورڈ ہی تیار نہیں ہے ۔مارچ کے تحت نیا تعلیمی سال شروع ہوچکا ہے ،آج یعنی یکم اپریل سے اسکولوں میں سال2024کے لئے درس وتدریس کا نیا عمل شروع ہوچکا ہے ۔لیکن بچے اب بھی کتابوں سے محروم ہیں ،کیوں بازاروں میں بورڈ کی کتابیں دستیاب نہیں۔کیابورڈ وقت پرکتابیں شائع نہیں کراسکا؟،کیا بورڈ مارچ سیشن کے لئے تیار نہیں ؟ یا پھر کسی ساز ش کے تحت یہ تاثر پیدا کر نی کوششیں کی جارہی ہیں ،کہ بورڈ نظام تعلیم کو چلانے کے لئے اہل ہی نہیں ۔ بورڈ کے ترجمان کو آگے آنا چاہیے اور واضح کردینا چاہیے کس کلاس کی کتابیں بازاروں میں دستیاب ہیں اور کس کلاس کی نہیں،کتابیں کہاں سے خریدی جاسکتی ہیں اور کہاں سے نہیں ۔والدین میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے ،کیوں اُنہیں ایک کتب خانے سے دوسرے کتب خانے کے چکر لگانے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ۔محکمہ تعلیم اور اسکول بورڈ آف ایجوکیشن کے ذمہ داراں ، والدین اور طلبہ کی بے چینی کا ازالہ فوری طور پر کریں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.