حقوق ِ حیوان میں حقوق ِ انسان کہاں ؟

حقوق ِ حیوان میں حقوق ِ انسان کہاں ؟

وادی میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے عام شہریوں کیلئے زبردست مسائل ومشکلات پیدا کئے ہیں۔عام لوگوں کا پیدل چلنا محال بن چکا ہے۔ صبح و شام ،گلی کوچوں اور مرکزی سڑکوں پر آوارہ کتوں کے جھنڈ دیکھنے کو ملتے ہیں۔سمارٹ سٹی منصوبے کے تحت شہر میں نصب کوڑا دانوں کو اس وجہ سے ہٹایا گیا کہ اب گھر گھر جاکر کچرے کو حاصل کرکے صحیح مقامات پر ضائع کیا جائے گا ۔یہ منصوبہ ماحول کو صاف وشفاف اور آلودگی سے پاک بنانے کے لئے عملایا جارہا ہے جبکہ اس کا مقصد شہر میں آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی پر قابو بھی پانا ہے ۔تاہم اس کے با وجود روزانہ درجنوں افراد جن میں بزرگ مرد وخواتین کے علاوہ بچے بھی شامل ہوتے ہیں، ان کتوں کے ہتھے چڑجاتے ہیں۔اب شہر کے فٹ پاتھوں پر آوارہ کتوں نے اس قدر ڈھیرے ڈالے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ یہ فٹ پاتھ اور برلب سڑک ان کی ملکیتی اراضی ہے اور ان کی تعداد دیکھ کر ہی خوف محسوس ہوتا ہے ۔حکام نے کتوں کی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے کئی مقامات پر متعدد نسبندی مراکز قائم کئے ہیں ،جہاں پر خصوصی اینمل طبی ماہرین کی بھی تعیناتی عمل میں لائی گئی جبکہ کتوں کی نسبندی کے لئے درکار مشینر ی کو بھی ان مذکورہ مراکز پر مہیا رکھا گیا ۔سرینگر میونسپل کارپوریشن کے افسران کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں کتوں کی نسبندی کی ہے۔اگر میونسپل حکام کا اعداد وشمار صحیح مانا جائے پھر ان کتوں کی تعداد میں کمی ہونی چاہیے تھی لیکن یہ تعداد روز بروز زیادہ کیوں ہو رہی ہے؟۔کئی علاقوں کے لوگ یہ شکایت بھی کررہے ہیں کہ ان آوارہ کتوں کو گاڑیوں میں سے رات کی تاریکی کے دوران مخصوص جگہوں پر اتارا جاتا ہے۔اسکے پیچھے کیا حقیقت ہے ؟لیکن ایک بات عیاں ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور آوارہ کتے عام لوگوں کیلئے خطر ہ ثابت ہو رہے ہیں۔
مرکزی حکومت نے جانوروں کے ضبط تولید (کتے)کے ضابطے 2001 کو ختم کرنے کے بعد جانوروں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کی روک تھام کے قانون،1960 کے تحت جی ایس آر193۔ای مورخہ10 مارچ،2023 کے ذریعے جانوروں کے ضبط تولید کے ضابطے 2023 کو نوٹیفائی کیا ہے۔ ان ضابطوں میں جانوروں کی بہبود کے ہندوستانی بورڈ اور پیپل فار ایلیمنیشن آف اسٹرے ٹروبلس کے درمیان2009 کے رِٹ پٹیشن نمبر 691 میں معز ز سپریم کورٹ کے رہنما اصول کی تعمیل کی گئی ہے۔ معزز سپریم کورٹ نے مختلف احکامات میں خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ کتوں کو منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔موجودہ ضابطوں کے مطابق، آوارہ کتوں کی نس بندی اور حفاظتی ٹیکوں کے لئے جانوروں کے ضبط تولید کا پروگرام متعلقہ بلدیاتی اداروں،میونسپلٹیوں،میونسپل کارپوریشنوں اور پنچایتوں کے ذریعے انجام دیا جانا ہے۔ اس کے علاوہ، اے بی سی پروگرام کو انجام دینے میں ہونے والے بے رحمانہ سلوک پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان قوانین کے مو¿ثر نفاذ سے، مقامی اداروں کے ذریعے جانوروں کی پیدائش پر قابو پانے کا پروگرام چلایا جا سکتا ہے جس سے جانوروں کی بہبود کے مسائل کو حل کرنے کے لئے آوارہ کتوں کی آبادی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔میونسپل کارپوریشنوں کو اے بی سی اور اینٹی ریبیز پروگرام کو مشترکہ طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضابطے رہنما خطوط بھی فراہم کرتے ہیں کہ کسی علاقے میں کتوں کو منتقل کئے بغیر انسانوں اور آوارہ کتوں کے درمیان تصادم سے کیسے نمٹا جائے۔؟
ضابطے کے تحت ضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ جانوروں کے ضبط تولید کے پروگرام کو اے ڈبلیو بی آئی کی تسلیم شدہ ادارہ کے ذریعے انجام دینے کی ضرورت ہے ، جو خاص طور پر جانوروں کے ضبط تولید کے پروگرام کے لئے منظور شدہ ہے۔ ایسی تنظیموں کی فہرست بورڈ کی ویب سائٹ پر دستیاب کرائی جائے گی جنہیں وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ بھی کیا جائے گا۔مرکزی حکومت نے پہلے ہی تمام ریاستی چیف سکریٹریوں، مویشی پروری کے محکمہ اور شہری ترقی کے محکمے کے پرنسپل سکریٹریوں کے لئے مکتوب جاری کئے ہیں۔ لہٰذا، بلدیاتی اداروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کریں اور کسی بھی ایسے اداروں کو اے بی سی پروگرام چلانے کی اجازت نہ دیں،جو اے ڈبلیو بی آئی سے تسلیم شدہ نہ ہو ں اور جنہیں اے بی سی پروگرام کے لئے منظور ی نہ ملی ہو یا بصورت دیگر ضابطوں میں جس کی تشریح کی گئی ہو۔مرکزی حکومت کی ہدایات اپنی جگہ ،تاہم وادی میںان آوارہ کتوں پر قابو پانے کیلئے مخصوص پارکوں تعمیر کرنی چاہیے اور گلی کوچوں میں ایک بھی آوارہ کتا نظر نہیں آنا چاہیے خاص کر شہر سرینگر کو کتوں سے صاف شہر بنانا چاہیے ۔شہری آبادی کیلئے بھی ایک طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ گھروں سے نکل رہے اضافی کھانہ وغیرہ مخصوص برتنوں میں جمع کر کے میونسپل اہلکاروں کے حوالہ کرنا چاہیے جن کے ذریعے یہ ان پارکوں میںجمع کتوں کو کھلا یا جا سکے۔اس کیلئے ایک لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے تاکہ صحت وصفائی بھی ممکن بن سکے اور آوارہ کتوں سے نجات بھی مل سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.