مودی کی گارنٹی۔۔۔۔۔

مودی کی گارنٹی۔۔۔۔۔

ملک بھر میں اپریل ۔مئی میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔عوامی رائے حاصل ہونے کے بعد مرکز میں نئی سرکار وجود میں آئے گی ۔لوگ عام انتخابات کے دوران اپنی رائے کا اظہار کرکے اقتدار کا تاج کس کے سر سجائیں گے اور کس کے سر نہیں ،یہ تو عوامی منڈیٹ ہی فیصلہ کرے گا ۔نریندر امودی کی سرابراہی والی سرکار ملک بھر میں گزشتہ10برسوں سے اقتدار میں ہے ۔بھاجپا نے انتخابی منشور میں جو وعدے عوام سے کئے تھے ،وہ پورا کرتی جارہی ہے ۔بھاجپا کا ایجنڈا ،دفعہ370کا خاتمہ تھا ،کیا ۔بھاجپا نے شہریت ترمیمی بل2019کو لاگو کیا ،یہ بھی ایجنڈا تھا ،پاکستان کو الگ تھلگ کرنا ،یہ بھی انتخابی منشور کا حصہ تھا ،کیا ۔بھاجپا ملک کو کانگریس مکت یعنی کانگریس سے پاک بھارت بنانا چاہتی ہے ،اس میں بھی بھاجپا کو کامیابی مل رہی ہے ۔کیوں کہ دس بھرسوں سے اپوزیشن کا کہیں کوئی نام ونشان ہی نہیں ۔

عام انتخابات سے قبل حال ہی میں چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کسی سیاسی معجزے سے کم نہیں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجستھان میں روایت کو برقرار رکھتے ہوئے جس طرح سے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ایک نیا رجحان شروع کیا ہے، اس نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی پنڈتوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی ہندوستان کی ہندی پٹی میں پی ایم مودی کی مقبولیت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اب وہ اگر اور مگر جیسے سوالوں سے بھی آزاد ہے۔ یہ صورتحال اس قدر فیصلہ کن ہے کہ اس سے نریندر مودی کے مسلسل تیسری بار وزیر اعظم بننے کے دعوے کو واضح طور پر تقویت ملی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی کی اب12 ریاستوں ۔ اتراکھنڈ، ہریانہ، اتر پردیش، گجرات، گوا، آسام، تریپورہ، منی پور، اروناچل پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومتیں ہیں اور وہ حکمران اتحاد میں شامل ہے۔ یہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستیں ملک کے 58 فیصد حصے پر محیط ہیں، جس میں57 فیصد آبادی شامل ہے۔

تینوں ریاستوں میں واضح اکثریت کے ساتھ جیت میں بہت سے مقامی عوامل نے بھی کردار ادا کیا، لیکن اس کا مرکزی عنصر وزیراعظم کی مقبولیت اور ان پر ووٹروں کا غیر متزلزل اعتماد ضرور ہے۔ وزیر اعظم کی رہنمائی میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا بڑے پیمانے پر نفاذ ان کے لیے الیکشن کے بعد ایک طاقتور ڈھال کا کام کر رہا ہے جس کے خلاف اپوزیشن کی حکمت عملیوں کے تمام ہتھیار بے اثر ہو جاتے ہیں۔ مفت راشن، غریب۔کسانوں۔خواتین کو نقد رقم، سستی رہائش۔ٹائلٹ۔سلنڈر جیسی اسکیمیں مہنگائی، بے روزگاری اورزراعت کے شعبے کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا انتخابی حل ثابت ہوئی ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ جہاں ان اسکیموں کا صحیح نفاذ رائے دہندوں کو حکومت سے جوڑتا ہے، وہیں اس میں کسی قسم کی لاپرواہی یا رساﺅ بھی عدم اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ لیکن انتخابات کے بعد انتخابی نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غریب ووٹروں اور محنت کش طبقے پر مودی کا اثر بدستور جاری ہے۔

بی جے پی، جسے اپنے ابتدائی سالوں میں اونچی ذات کی حامی اور شہری پارٹی کے طور پر دیکھا جاتا تھا، پچھلے نو دس سالوں میں سماج کے ہر طبقے میں قدم جما چکی ہے۔سی سی اے کو ملک بھر میں نافذ کرکے بھاجپا تیسری بار حکومت میں آنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کررہی ہے ۔کامیابی یا نہیں دیکھنا باقی ہے ۔تاہم خوش قسمتی کی بات ہے کہ آج کا رائے دہندہ ،سیاست کی گلیاروں سے بخوبی واقف ہے ۔نوجوان ووٹر اپنی تقدیر کس کے ہاتھ میں دینا چاہتا ہے ،اس کا فیصلہ اُسے اپنی رائے کے ذریعے کر نا چاہیے ،عوامی غصے کو باہر نکالنے کے لئے رائے دہی مﺅثر ہتھیار ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.