اقتدار کی لال پری ۔۔۔۔۔

اقتدار کی لال پری ۔۔۔۔۔
جموں کشمیر کی قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں کا اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی)جس میں بعض قومی سیاسی سطح کی پارٹیاں بھی شامل تھیں ،جن میں کانگریس ایک اہم حصہ ہے ،میں خلیج اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب یہ اتحاد عملی طور پر ٹوٹ چکا ہے ۔اس اتحاد کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ ملک کیساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں ہورہے پارلیمانی انتخابات ہیں ۔جموں وکشمیرمیں پانچ پارلیمانی نشستیں جن کی تعداد ملک کے پارلیمان میں انتہائی کم ہے ۔تاہم ان نشستوں کی اہمیت کو کسی بھی طور پر بھی کم نہیں تولا جاسکتا ہے ۔کیوں کہ پارلیمان نے ایک ایک ووٹ کی اہمیت وافادیت ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) میں شامل جموں وکشمیر کی دو بڑی سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس(این سی ) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)آمنے سامنے آگئیں ۔این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ کا واضح طور پر کہنا ہے کہ وہ اُس جماعت کیساتھ انتخابی گٹھ جوڑ نہیں کریں گے ،اُن کی پارٹی اننت ناگ کی پارلیمانی نشست کانگریس کے لئے چھوڑ نے کے لئے تیار ہے ،لیکن پی ڈی پی کو کبھی نہیں ۔ان کا کہناتھا کہ پی ڈی پی اپنی ساکھ کھو چکی ہے ۔
دوسرے جانب سے پی ڈی پی کی صدر اور جموں وکشمیر کی پہلی سابق خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ این سی نے وہ کام کیا ،جو بی جے پی نہیں کرسکی ۔دونوں سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے سیاسی حمام میںغوطہ زن ہونے کی کوشش کی ۔جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے سربراہ سیدالطاف بخاری نے ’پی اے جی ڈی‘ کے دو پھاڑ ہونے پر کہا کہ ہم یہ بات گزشتہ چار سال سے کہہ رہے تھے کہ یہ اتحاد زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔انہوں نے کہاکہ ان لوگوں کو دفعہ370کو بحال کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔جموں وکشمیر پروگریسیو آزاد پارٹی کے سربراہ غلام نبی آزاد نے کہا کہ جموں وکشمیر میں جلدازجلد اسمبلی الیکشن ہونے چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ’پی اے جی ڈی‘ دو پھاڑ ہونے کے بارے میں پہلے ہی پیشین گوئی ظاہر کی تھی۔جموں وکشمیر بھارتیہ جنتاپارٹی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے ’پی اے جی ڈی‘ کے دو پھاڑ ہونے پر کہا کہ کشمیر کی سیاست میں یہ صرف آغاز ہے۔انہوں نے کہاکہ عمر عبداللہ نے پی ڈی پی کو آئینہ دکھایا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی نے جو الزام این سی پر لگایا وہ صحیح تھا۔
جموں و کشمیرمیں انتخابات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے ایک ساتھ ہونے کی میڈیا رپورٹس میں باز گشت بھی ہورہی ہے ۔ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی، جِسے خطے میں انتظامی اختیارات کاسب سے اونچا مقام حاصل ہے،2018سے تحلیل ش±دہ ہے۔ علاقائی جماعتوں کی جانب سے اسمبلی انتخابات کرانے کے مسلسل اور زوردار مطالبات کامرکزی حکومت کی جانب سے مبہم وعدوں کے ساتھ جواب دیا گیا ہے۔ بھارت کے چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اسمبلی انتخابات ”صحیح وقت پر“ منعقد کئے جائیں گے۔تاہم عام انتخابات سے قبل علاقائی پارٹیوں میں اختلاف عام لوگوں کے لئے حیران کن نہیں ہے ۔لوگوں کا ماننا ہے کہ علاقائی پارٹیاں عوام کے حقوق پر بلند بانگ دعوے اور وعدے تو کررہی ہیں ،لیکن وہ سنجیدہ نہیں ہیں ،کیوں کہ اُنہیں اقتدار کی لال پری ہی سامنے نظر آتی ہے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ۔پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن ٹوٹنے پر کیا بی جے پی کو آئندہ عام انتخابات میں کشمیر میں کوئی فائدہ ملتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا ۔تاہم علاقائی پارٹیوں میں پھوٹ جموں وکشمیر کی سیاسیات اور اُن سیاسی پارٹیوںکے لئے لمحہ فکر یہ ہے ،جنہوں نے یہ اتحاد دفعہ370کی واپسی کے لئے قائم کیا تھا ۔شاید اُنہیں احساس ہوگیا ہے کہ جو گیا وہ نہیں آنے والا ہے ،اس لئے آگے بڑھ کر اقتدار کی لال پری ہی حاصل کی جائے ،مقصد تو یہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.