پیر پنجال کے پہاڑی علاقوں میں روشنی کے لیے جدوجہد

پیر پنجال کے پہاڑی علاقوں میں روشنی کے لیے جدوجہد
سیدہ سہرش کاظمی
پیر پنجال کی پہاڑیوں کے ناہموار علاقے میں، زندگی کے حالات میں بالکل تضاد سامنے آیا ہے، جوترقیاتی تفاوت کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ رہائشیوں کو درپیش چیلنجز، خاص طور پر پسماندہ افراد، بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے اور بڑھ گئے ہیں۔ اس میں بجلی کا بہران اہم ہے۔بجلی کی وقفے وقفے سے فراہمی کا مسئلہ بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر سیاہ سایہ ڈال رہا ہے۔جیسے ہی سورج افق کے نیچے ڈوبتا ہے، پہاڑی زمین کی تزئین کو اندھیرے میں لیے ڈوبتا ہے، دو جہانوں کی کہانی سامنے آتی ہے۔ جہاں امیر مکین آرام سے اپنے گھروں کو روشن کرنے کے لیے انورٹرز پر انحصار کرتے ہیں،وہیں آبادی کا ایک بڑا حصہ بجلی کی کٹوتیوں کی تلخ حقیقت سے دوچارہوتا ہے۔ رات کا بلیک آؤٹ ان لوگوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے۔ معاشی طورپر پسماندہ افراد کے لیے،رات کے وقت بجلی کی عدم موجودگی محض ایک تکلیف نہیں ہے بلکہ یہ ان کی بقا کے لیے ایک انتھک جدوجہد ہے۔ بنیادی کام جیسے کہ پڑھائی، کھانا پکانا، اور یہاں تک کہ تنگ راستوں سے گزرنا بھی بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ قابل اعتماد بجلی تک رسائی کی کمی نہ صرف روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ ان نوجوانوں کے لیے تعلیمی مواقع میں بھی رکاوٹ بنتی ہے جو غربت کے چکر سے آزاد ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔آج بھی ملک کے کچھ ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں بجلی کے بہترنظام نہیں ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زندگی درہم برہم بنی ہوئی ہے۔ اسی میں ایک پیر پنجال کی پہاڑیوں سے گھراسرحدی ضلع پونچھ کا ایک گاؤں قصبہ بھی ہے۔جو بلاک بانڈی چیچیاں کے تحت آتا ہے۔
اس سلسلے میں 20سالہ سائرہ کاظمی،جس نے حال ہی میں اپنا گریجویشن مکمل کیاہے اور اب نوکری کے لئے جے کے ایس ایس بی کی تیاری کر رہی ہے، کہتی ہے کہ حال ہی اس نے امتحانات کی تیاری کے لیے کتابیں خریدی ہیں جسے وہ فون کی روشنی میں پڑھنے کو مجبور ہے۔وہ بتاتی ہے کہ بار بار بجلی کٹوتی کی وجہ سے رات کو پڑھائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسے مجبوراً فون کی روشنی آن کرنی پڑتی ہے۔ جس سے نہ صرف فون کے چارج پر بلکہ اس کی آنکھوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔صرف قصبہ گاؤں کی سائرہ ہی نہیں بلکہ بلاک بانڈی چیچیاں کے دیگر گاؤں کے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی بھی بجلی کے اس کٹوتی سے متاثر ہو رہی ہے۔ پہاڑی علاقوں کے زیادہ تر لوگ غریب ہیں اور انورٹر کے متحمل نہیں ہیں۔ایسے میں بجلی کی مسلسل کٹوتی کی وجہ سے نہ صرف بچے اور طلبہ بلکہ بزرگ، خواتین اور مزدور سبھی کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ نونا بانڈی سے تعلق رکھنے والی طالبہ سبا گلزار کو اپنے امتحانات کے دوران بجلی کی کمی کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی طرح چونترہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم ذیشان احمد کو بجلی کے مسائل کی وجہ سے رات کو پڑھائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ انہیں گرمیوں میں بجلی کی کٹوتی کی وجہ سے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔وہ مقامی کہتے ہیں کہ کوئی اس گھر کی پریشانی کا اندازہ نہیں لگا سکتا ہے جہاں ایک دہ ماہ کا نوزائیدہ بچہ ہواور وہ کسی وجہ سے بیمار ہو۔ بجلی نہیں ہونے کی وجہ سے اس بچے کے والدین کس طرح رات گزارتے ہونگے؟
 قصبہ گاؤں بانڈی چیچیاں کا ایک پسماندہ گاؤں مانا جاتا ہے۔ جہاں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ایسے میں بجلی کی بار بار کٹوتی یہاں کے مقامی لوگوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ محکمہ بجلی یہاں کے لوگوں سے بلوں کی باقاعدگی سے ادائیگی پر مستعدی سے عمل کرتا ہے لیکن جب بجلی دینے کی بات آتی ہے تو وہی محکمہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہی بھول جاتا ہے ۔اس سلسلے میں ایک مقامی سرفراز احمد، جوپیشہ سے ایک مزدور ہیں،کہتے ہیں کہ اُنکے گاؤں میں بجلی کی بہت تنگی ہے، خاص طور پر رات کے اوقات میں لوگوں کواس کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ محلے کے چند خوش قسمت لوگوں کو انورٹر کی سہولیات فراہم ہے۔ لیکن باقی مجھ جیسے غریب لوگوں کورات اندھیرے میں گزارنی پڑھتی ہے۔ ان ضروری اوقات کے دوران بجلی کی عدم موجودگی اہم چیلنجز کا باعث بنتی ہے، روزمرہ کے معمولات میں خلل ڈالتی ہے اور رزق اور خاندانی ہم آہنگی کے سب سے بنیادی کاموں میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اس طرح کی مصیبت کے عالم میں ہمیں ٹارچ لائٹ جیسے عارضی حل، صرف عارضی مہلت پیش کرتے ہیں،لیکن مسلسل روشنی فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور گھرانوں کو اندھیرے میں ڈوبا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بلاک بانڈی چیچیاں کے محکمہ بجلی کے افسر جگجیت سنگھ کہتے ہیں کہ بجلی کا یہ بہران صرف قصبہ میں ہی نہیں بلکہ پورے پونچھ میں ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لئے محکمہ مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ سردیوں میں زیادہ اورلوڈنگ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔لوگ سردیوں میں ہیٹر اور گیزرکا بہت زیادہ استعمال کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے سپلائی پر اثر پڑتا ہے۔ جیسے جیسے سردیاں کم ہوتی ہیں بجلی کے بہران کا مسئلہ بھی کم ہو جاتا ہے۔حالانکہ محکمہ کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ جب اسے معلوم ہے کہ سردیوں میں ہیٹر اور دیگر آلات کا زیادہ استعمال ہوتا ہے تو وہ پہلے سے اس کی تیاری کیوں نہیں کر لیتا ہے؟
بہرحال،بجلی کی یہ مسلسل محرومی نہ صرف لوگوں کی معیارِ زندگی کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ موجودہ سماجی و اقتصادی تفاوت کو بھی بڑھاتی ہے، جو کمیونٹی کے اندر مراعات یافتہ اور پسماندہ لوگوں کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔ اس تفاوت کے اثرات انسانی وقار اور فلاح و بہبود کے بنیادی پہلوؤں کو چھوتے ہوئے محض تکلیف سے بڑھ کر ہیں۔ قابل اعتماد بجلی تک رسائی محض سہولت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جدید وجود کا سنگ بنیاد بھی ہے۔ تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا، معاشی پیداواری صلاحیت میں اضافہ، اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول مقامی حکام، یوٹیلیٹی فراہم کرنے والے، اور کمیونٹی لیڈرز کی جانب سے ٹھوس کارروائی اور باہمی تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے اس دوردراز علاقہ کی غریب عوام کو بھی بجلی جیسی بنیادی سہولت آسانی سے فراہم ہو سکے۔ یہ انتظامہ اور محکمہ کی صرف ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔
(چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.