ماں کے پیروں تلے جنت ہے

ماں کے پیروں تلے جنت ہے

اک دوست کی فرمائش پر ”'((اک مجبور ماں کی داستاں)) ،،،

چند سال قبل میں اور میرے دوست کو شہر کی طرف رخ ہوا دن کے دس بجے تھے اور اسٹیشن پر گاڈی میں بیٹھے۔ سورج کی تپش اس قدر بڑی شدت سے گاڈی کے اندر ہم محسوس کر رہے تھے دل گروی اور ذبان سے اپنے رب کو یاد کرتے جا رہے تھے۔ سٹیشن بہ سٹیشن گاڑی پر سواری کے اترنا چڑھنا عمل جاری تھا اسی اثناء میں اسٹیشن میں ایک بوڈھی عورت اس گاڈی میں چڑھی،جوہی میری نظر اس بوڈھی عورت کی طرف پڑھی ان کی آنکھوں سے بے ساختہ لہو کے آنسؤں چھلک رہے تھے میں بھی ان کے آنسؤں کو دیکھ کر درد کے آنسوں محسوس کر رہا تھا جوہی اس عورت کے آنسؤں نے زور پکڑتے گیے انہیں دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسوں گرنے لگے اتفاقاً میرے دوست نے اس ماں سمان عورت کو اپنے سیٹ پہ بیٹھایا۔ اس بوڈھی ماں کا حال رونے سے نڈال ہوا تھا میرے ہاں رہا نہیں گیا اور بوڈھی ماں سے رونے کا سبب پوچھا۔جواب ملا،،,,,,(بیٹا میں آپ کو کیا بتاؤں)، اس جملے نے تو میرے دل کو چیر کر کے رکھ دیا۔ بیٹاچند سال پہلے بیماری کی حالت میں میرے خاوند اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے دن کو کماتے تھے شام کو کھاتے تھے،میرا کوئی بیٹا نہیں،چار بیٹیاں ہیں۔اب کمانے والا کوئی نہیں،۔بڑی بیٹی کی شادی چند سال قبل ہوی ہے ۔۔آج ہمارے ہاں مہمان آرہے ہیں دوسری بیٹی کے رشتے کےلے۔اس کے فون پر رینگ آتی رہی مگر فون اٹھانے کی زحمت نہ کی ،،دیکھا سسرال سے بڑی بیٹی فون کر رہی تھیں، اس ماں نے تھر تھراتے ہوے فون اٹھایا ،وہاں سے بیٹی بلک بلک بلک کر رو رہی تھی،کہہ رہی تھی ماں چائ کے لئے انتظام کیا ہے آ کے لیے جانا۔ کہہ رہی تھی ماں مت رو کیوں مجھے رولا رہی ہے تو غم نہ کر ہم بھی بتائیں گے خالی چایٔے پے آجانا،۔میں بھی اس ماں کوکچھ مالی مدد کرنا چاہتا تھا پر کیا کریں میرے ہاں کل کرایہ کے لیے ستر روپیے تھے اس میں سے بھی اس ماں کا کرایہ ادا کیا،، اس ماں نے مجھے تھوڑی مدد کے لیے بھی دعا دی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے بیٹی رحمت ہوتی ہے اور ماں کے پیروں تلے جنت ہیں،،،
قلم اور کاغذ اُٹھاتے ہوئے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ کیا میرے پاس اتنے الفاظ ہیں کہ اُس عظیم ہستی کو خراج عقیدت پیش کر سکوں، کیا میرے قلم میں اتنی سکت ہے کہ وہ اُس عظیم ہستی کی عظمت کو لکھ سکے؟ ”ماں“…. ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ بے لوث محبت، شفقت، اپنائیت، قربانی کا دوسرا نام ماں ہے، ماں کے لئے قلم اُٹھایا تو ایسا لگا کہ لفظ ہی کم پڑ گئے،ماں کی بے لوث محبت کو لفظوں میں پرویا نہیں جا سکتا اور نہ ایسا کوئی پیمانہ ہے، جس سے ماں کی محبت کو ناپا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیار کی تشبیہہ ماں کے پیار سے دیتا ہے۔ ماں اندھیرے میں اُجالا ہے، ماں اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے، ماں اپنی اولاد سے غیر مشروط محبت کرتی ہے۔

ازطرف ماجد وانی۔
سانحہ حقیقی

Leave a Reply

Your email address will not be published.