گوگہ کہ اس وقت وادی کشمیر میں سرمائی تعطیلات کے سبب تمام تعلیمی ادارے بند ہیں ۔مارچ کے آتے ہی اسکول دوبارہ کھل جائیں گے ،درس وتدریس کا عمل شروع ہوجائے گا ۔سالانہ امتحانات کی بہار چہار سو ہوگی ۔سالانہ امتحانات کیساتھ ہی توقع یہی ہے کہ پرائمری سطح کے کلاسز میں نیا تعلیمی سیشن شروع ہوگا اور پھر والدین کی کچن سے لیکر اسکول کے گیٹ تک کی جدوجہد شروع ہوجائے گی ۔یہ سلسلہ اگلے تعلیمی سیشن تک جاری رہے گا ۔تاہم جس موضوع کو آج کے اداریہ میں زیر بحث لانے چاہتے ہیں ،وہ انتہائی سنجیدہ ہے ۔آج کی نوجوان نسل گھر کا کھانا کم اور باہری یعنی بازاروں کا کھانا خواہ وہ کسی بھی قسم اور شکل میں ہو ،کو پسند کرتی ہے ۔اگر یوں کہا جائے کہ آج کی پود ’ جنک فوڈ ‘ یا رستوران میں ملنے والے پکوان پر زندہ ہے ،تو کچھ غلط نہیں ہوگا ۔ویسے بھی مشرق ،مغرب کو پیچھے چھوڑ نے کی ضدمیں ایک ایسی (ریس)یعنی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے ،کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ’انٹارکٹیکا‘ کوعبور کرکے فتح کرنے چالا ہے ۔اس دوڑ میں مشرق نے اپنی روایات کو اپنے ہاتھوں دفن کیا۔
دال ،چاﺅل کی جگہ فرائڈ رائس ، برگر اور طرح طرح کے رولز نے لی۔اب تو نئے مسائل اور جھمیلے جنم لے رہے ہیں۔مجھے یاد ہے جب ہم اسکول جاتے تھے ،ہمارے’ لنچ بکس‘ جیسے ٹفن کہا جاتا تھا ،میں ماں کے ہاتھوں بنی لذیز زیافتیںہی ہوتی تھیں ۔ساگ اور چاﺅل کی مشری ایسی زیافت ہوتی تھی کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری زیافتیں پھیکی ہی پڑ جاتی تھیں ۔لنچ بکس اور اسکول کے جھمیلوں نے عام آدمی کو پریشان کرکے رکھ دیا ۔نجی اسکولوں کی انتظامیہ کے یہ فرمان کہ والدین کے نام جاری ہوتے ہیں کہ’ آج لنچ نہیں بلکہ ڈرائی لنچ ‘کیساتھ بچے کو اسکول بھیجئے گا ۔اب سیدھی سادی کشمیری قوم کو کیا پتا کہ ’ڈرائی لنچ ‘ کس بھلا کا نام ہے ۔ ویسے بھی لنچ باکس سے بے رغبتی ہو تو بچے اکثر اپنا’ لنچ‘ یعنی (دوپہر کا کھانا ) اپنے ساتھیوں کو کھلا دیتے ہیں۔ اکثر بچے بازاری اشیا کھانا پسند کرتے ہیں، جب کہ مائیں صحت بخش غذائیت سے بھرپور غذاو¿ں پر اصرار کرتی ہیں۔لیکن اب اگر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نجی اسکول ہی ماں کے کھانوں کی جگہ بازاری پکوانوں کو ہی پروان چڑھانے میں اپنا رول ادا کریں تو معاشرہ ’برگر ‘ ہی بن جائے گا ۔ اگربچے گھروں میں کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتے، ایسے میں انہیں اسکول کے لیے ایسی کیا چیز دی جائے جو وہ شوق سے کھالیں اور نجی اسکولوں کے اِن جھمیلوں سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے کہ لنچ نہیں ڈرائی لنچ ہونا چاہیے ۔آج کل ہر بازار کے چوراہے پر ایک لذیز پکوانوں کی دکان ضرور دیکھنے کو ملتی ہے ۔چائے ملے یا نہ ملے لیکن چیکن رول تو ضرور ملے گا ۔
ویسے بھی بازار میں مختلف ڈیزائن کے’ کٹر‘ دستیاب ہیں۔ایسے میں بچوں کو صحت مند غذاءسے رغبت کیسے بڑھے ؟،لہٰذا گھروں میں ہی پکوانوں کے نئے تجربے کئے جائیں اور ایسے پکوان بنائے جائیں ،جو بچوں کو پسند بھی آئے اور بازاری پکوانوں سے نجات بھی ملے ۔بچے کی بہترین شخصیت سازی میں ماں کا اہم کردار ہوتا ہے،بدلتی دنیا میں ماﺅں کو بھی کچن کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے اور بچوں کی غذا میں بھی خصوصی طور پر ایسی غذائیں شامل کی جائیں، جو ان کی یادداشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں۔تاہم اسکولوں کی انتظامیہ کو بھی ڈرائی لنچ کے نئے جھمیلے سے خود کو الگ کرنا چاہیے بلکہ گھریلوں پکوانوں پر زور دینا چاہیے ۔اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں طالب علموں کی نشو نما کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔لیکن فروٹ ڈے ،آئیس کریم ڈے ،فن ڈے وغیر وغیرہ کے نام پر بچوں کی صحت کیساتھ کھلوارڈ کرنا واقعی نا انصافی ہے ۔اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔مڈڈے میل (یعنی دوپہر کا کھانا ) یہ ایک ایسی اسکیم ہے ،جس پر سرکار نے خاص تو جہ مرکوز کی ہے ۔ دوپہر کا کھانا بچوں کے لئے’غذائی ضمیمہ ‘ کا ذریعہ ہے اَور ا±ن کی صحت کی بالیدگی کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔ یہ اشتراکی اقدار کی توسیع میں بھی مدد کر سکتا ہے کیونکہ کلاس میں مختلف سماجی پس منظر والے بچّے ساتھ میں بیٹھتے ہیں اَور ساتھ ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ خصوصی طور پر دوپہر کا کھانا اسکول میں بچّوں کے متوسط ذات اَور طبقے کی رکاوٹ کو مِٹانے میں مدد کر سکتا ہے۔ نجی اسکولوں کو بھی ڈرائی لنچ کی دلدل سے خود باہر نکالنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ملک وقوم کا طاقتور اور تندرست مستقبل کی تعمیر ممکن ہوسکے ۔





