بچے کیسے پڑھیں جب گاؤں میں بجلی ہی نہیں ہے؟

بچے کیسے پڑھیں جب گاؤں میں بجلی ہی نہیں ہے؟
پشپا کماری,گیا، بہار
”ہم جب بھی شام کو پڑھنے کے لیے بیٹھتے ہیں تو لائٹ چلی جاتی ہے، کبھی کبھار جلدی آتی ہے، لیکن اکثر اوقات گھنٹوں بجلی نہیں ہوتی، ایسے میں ہماری پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے۔ ہم نویں کلاس میں پہنچ چکے ہیں، اس لیے اگر حالت بجلی ایسی ہی رہی تو تیاری اچھی نہیں ہوگی پھر دسویں کا امتحان کیسے پاس کریں گے؟“ یہ الفاظ ہیں بہار کے مشہور گیا ضلع کے قصاپی پرانی ڈیح گاؤں کی 15 سالہ اسکول کی طالبہ چاندنی کے۔ چاندنی کی طرح اس کی دوسری سہیلیاں نندنی اور پریتی بھی اس کی باتوں کی تائید کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ”امتحان کا وقت قریب ہے۔ ایسے میں اگربجلی کا یہ مسئلہ یونہی چلتا رہا تو ہماری پڑھائی کا کیا ہوگا اور ہم پاس کیسے ہونگیں؟گیا ضلع کے ڈوبھی بلاک کے تحت اس گاؤں میں تقریباً 633 خاندان رہتے ہیں۔ جن کی کل آبادی 3900 کے لگ بھگ ہے۔ اتنی بڑی آبادی والا یہ گاؤں 11 ٹولوں (بستیوں) میں تقسیم ہے۔ درج فہرست ذات والے اس گاؤں میں تقریباً 1600 درج فہرست ذات اور دیگر پسماندہ طبقے کے خاندان رہتے ہیں۔ گاؤں میں خواندگی کی شرح تقریباً 58 فیصد ہے۔ گاؤں کی زیادہ تر آبادی کاشتکاری سے وابستہ ہے۔ جن کے پاس قابل کاشت زمین نہیں ہے وہ روزگار کے دوسرے ذرائع پر منحصر ہیں۔ زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے دہلی، کولکتہ، ممبئی، سورت اور گروگرام چلے جاتے ہیں۔ گاؤں میں بجلی کے مسئلہ سے نہ صرف اسکول کے لڑکے اور لڑکیاں پریشان ہیں بلکہ کسانوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔
اس سلسلے میں گاؤں کے 55 سالہ کسان شنکر کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی زمین پر کاشتکاری کا کام کرتے ہیں۔جس کے لئے آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں شام کے مقابلہ صبح کے وقت بجلی زیادہ رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کو اپنی فصلوں کو سیراب کرنے میں کافی فائدہ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی دن کے وقت لائٹس بند ہونے سے مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی آبپاشی کے وقت بجلی نہیں ہوتی ہے تو ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ آبپاشی کے لیے پمپ کرائے پر لائے جاتے ہیں۔ لیکن جب بھی سارا دن بجلی نہیں آتی، تب بھی ہمیں پمپ کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور 36 سالہ خاتون کسان گڑیا دیوی کہتی ہیں کہ وہ اپنے کھیت میں گوبھی، پیاز، مرچ اور لہسن کا کاشت کرتی ہیں۔ جس کے لیے آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ بجلی پہلے سے زیادہ دیر تک رہتی ہے۔ جس کا فائدہ انہیں ملتا ہے۔ اب وہ اپنے کھیتوں کو وقت پر سیراب کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے فصل کی اچھی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو گاؤں میں بجلی کم ہی آتی تھی۔ شام کے بعد اکثر بجلی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب اس میں کافی بہتری آئی ہے۔ اب پہلے کی طرح بجلی کی کمی نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بزرگ کھیتوں میں سینچائی کی بہت فکر کرتے تھے۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ گڑیا بتاتی ہیں کہ چند ماہ قبل کھیتوں کے پاس سے گزرنے والی بجلی کی تار اچانک ٹوٹ کر گر گئی تھی۔ اس سے کسی قسم کا حادثہ تو نہیں ہوا لیکن اس سے کسانوں کا نقصان ضرور ہوتا کیونکہ اس وقت کھیتوں میں آبپاشی کا وقت تھا۔ ایسے میں گاؤں والوں نے بجلی کے محکمے کا انتظار کیے بغیر آپس میں مل کر 900 روپے جمع کیا اور ایک الیکٹریشن کوبلا کر کے تاروں کی مرمت کرالی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر ہم محکمہ بجلی کا انتظار کرتے تو کافی وقت گزر جاتا اور آبپاشی کا وقت بھی ضائع ہو جاتا۔بجلی کے نظام میں بہتری سے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی مستفید ہو رہے ہیں۔
 گاؤں کے پرائمری اسکول میں جہاں تقریباً 90 بچے پڑھتے ہیں۔ اس اسکول میں تین کمرے ہیں جن میں پہلی سے پانچویں جماعت کے لڑکے اور لڑکیاں پڑھتے ہیں۔ا سکول کے بچوں کا کہنا ہے کہ اسکول میں لائٹس لگنے سے ان کی پڑھائی بہتر ہوتی ہے۔ گرمیوں میں لائٹس بند ہونے سے بچوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پانچویں جماعت میں پڑھنے والی طالبہ کاجل پاسوان کہتی ہیں، ”گرمیوں میں جب لائٹس بند ہو جاتی ہیں، توما سٹر جی ہمیں کلاس سے باہر لے جاتے ہیں اور برآمدے میں بٹھاتے ہیں۔ تاکہ ہمیں زیادہ گرمی نہ لگے۔“ وہ بتاتی ہے کہ تیسری سے پانچویں کلاس تک کے بچے ایک ہی کمرے میں بیٹھتے ہیں۔ ایسے میں گرمیوں میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طالب علم کی ماں بسنتی دیوی کہتی ہیں کہ بچے اسکول میں جتنا پڑھتے ہیں وہ کافی ہے کیونکہ گاؤں میں اکثر شام کو بجلی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں بچے کیا پڑھیں گے؟ حالانکہ اب بجلی کی کٹوتی پہلے کی نسبت کم ہے۔ لیکن لائٹس آنے کے بعد بچوں کو دوبارہ پڑھنے کے لیے بٹھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ بڑی کلاسوں میں پڑھنے والے بچے اب بھی پڑھنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن چھوٹے بچوں کو باہر جانے کا اچھا بہانہ مل جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی چند دہائیوں میں ملک کے دیہی علاقوں میں بجلی کا نظام پہلے کے مقابلے بہت بہتر ہوا ہے۔ مرکز کی ”سوبھاگیہ اسکیم“ اس سمت میں ایک اہم کڑی ثابت ہوئی ہے۔ اکتوبر 2017 میں شروع کی گئی یہ اسکیم اب تک کروڑوں گھروں کو روشن کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ بہار حکومت نے ”بہار ہر گھر بجلی یوجنا“ شروع کرکے دیہاتوں کو بجلی کٹوتی کی پریشانی سے نجات دلانے کا کام بھی شروع کیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بہار کے دیہی علاقوں کو ہوگا۔ ایک طرف بجلی پر چلنے والی چھوٹی صنعتیں گاؤں کی سطح پر قائم کی جا سکتی ہیں تو دوسری طرف کسانوں کو آبپاشی میں بھی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب تک بجلی کی کٹوتی کے مسئلے پر مکمل قابو نہیں پایا جاتا، کوئی بھی سکیم سو فیصد کامیاب نہیں کہی جا سکتی۔ ایسے میں مقامی انتظامیہ اور محکمہ بجلی کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم بھی بلا تعطل جاری رہ سکے۔ (چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.