بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
12.9 C
Srinagar

خامیوں کو دور کرنا لازمی ۔۔۔۔۔

موجودہ تعلیمی نظام پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں، تو یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ آج کے اساتذہ بچوں کو صرف کتابوں کاسبق پڑھا کر زبانی یاد کرواتے ہیں۔یہ بچے سبق میں موجود ہر سوال کا جواب آسانی کے ساتھ دےتے ہیں لیکن ان بچوں کو ہرگز وہ علم نہیں ہوتا ہے جس مقصد کے لئے قلمکار نے یہ پورا سبق تحریر کیا ہوتا ہے کیونکہ موجودہ دور کے بچے اور اُن کے والدین صرف اس فکر میں لگے ہوتے ہیں کہ اُن کی ڈگری سرٹیفکیٹ کب ملے گی ۔تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اچھا خاصہ روز گار کما سکیں۔اگر ہم وادی کشمیر کا سرسری جائزہ لیں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وادی کے ہر گھر میں ڈاکٹر اور انجینئرموجودہیں۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سرمایہ داروں نے بے شمار دولت اپنے بچوں کو ڈگری دلانے کے لئے صرف کی۔سرکاری سطح پر بھی اس بات کی تحقیقات ہوچکی ہے ۔

ان تیس برسوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ڈاکٹر اور انجینئر بن گئے ،جو حقیقی معنوں میں اس قابل نہیں تھے، لیکن ان کے والدین نے لاکھوں روپے رشوت کے عوض میڈیکل اور انجینئرنگ سیٹیں حاصل کیں۔اس بنا پر ایک اعلیٰ عہدیدار کو نہ صرف جیل جانا پڑا بلکہ اُن کی جائیداد بھی سرکار نے ضبط کی۔سوال یہ نہیں ہے کہ اس اسکنڈل کا پردہ فاش کیا گیا بلکہ سوال یہ ہے کہ قابل اور ذہین بچے ناکام ہوئے اورسرمایہ داروں کے نااہل اور ناقابل بچے اونچے عہدوں پر فائز ہوئے اور انہوں نے انتظامی سطح پر تباہی مچائی، جس کو ٹھیک کرنے میں ابھی نہ جانے کتنے سال لگ جائیںگے۔اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی جانب ایک نظر ڈالیے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ وہاں ڈاکٹری کے پیشے میں ڈاکٹر ملے گا اور انجینئرنگ کے شعبے میں انجینئر ملے گا۔

وہاں کے اسکولوں میں بچوں کو اساتذہ کتابوں میں درج اسباق پڑھانے کے ساتھ ساتھ سبق کااصل مقصد بھی سمجھاتے ہیں اور وہ حقیقی معنوں میں ترقی پسند لوگ بن جاتے ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں جاکر ایمانداری سے کام کرتے ہیں۔اب جبکہ بھارت بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہورہا ہے اور زمین سے لیکر آسمان تک کی سیر کرنے میں پہلے نمبر پر آرہا ہے لیکن وادی کشمیر میں اب بھی تعلیمی نظام میں بھر پور خامیاں نظر آرہی ہیں، اس اہم شعبے کو تجارتی ترازوں میں تولا جارہاہے ۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالک تو تاجر ہی ہیں، لیکن سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی اب پڑائیویٹ ٹیوشن مراکز کھول کر صرف مال کمانے کیفکر میں لگے رہتے ہیں ۔یہ اساتذہ نہ ہی پُرانے زمانے کے اساتذہ کی طرح زیر تعلیم بچوں کو اپنے بچے سمجھتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں تن دہی ،محنت اور لگن سے اچھے انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں نہ ہی یہ اساتذہ ان بچوں کو کتابوں میں درج تعلیم کے اصل مقاصد اور مغز کو سمجھانے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں کیونکہ وہ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود بھی خود بے خبر ہیں۔اسی لئے ہماری وادی شاید ملک کے دیگر حصوں کی نسبت ہر حال میں کمزور نظر آرہی ہے چاہئے ،وہ انتظامی سسٹم ہو یا پھر تعلیمی نظام یا پھر ایماندارنہ تجارت ۔جب تک ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیمی نظام فراہم نہیں کریں گے ،تب تک نہ ہی ہمارے معاشرے میں سدھار آسکتا ہے نہ ہی ہم ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کرسکتے ہیں ۔غرض ہمیں اپنا تعلیمی نظام فلسفوں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ عملی طور بچوں کو حقیقی تعلیم کے نور سے آراستہ کرنا چاہیے تب جا کر ہم کامیابی کی منزل کو حاصل کرسکتے ہیں اوراس کے لئے صحیح اساتذہ درکار ہیں، جو ڈگری یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ بھی ہو۔وادی کے موجودہ تعلیمی نظام دیکھ کر شاعر مشرق کا یہ شعر یاد آتا ہے۔رہ گئی رسم اذاں، روحی بلالی نہ رہی، فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی۔

Popular Categories

spot_imgspot_img