منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
9.1 C
Srinagar

محبت کیساتھ گھریلو تربیت۔۔۔۔۔۔۔

بچے ہمارے مستقبل کے معمار ، ہمارا سرمایہ، ہمارا فخرو افتخار ہیں۔ انہوں نے ہی آگے چل کر ملک وقوم کی بھاگ دوڑ سنبھال لینی ہے اور اپنی جدا جدا مہارتوں سے خدمت کرنی ہے۔ والدین اگر آج بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے اور انہیں احسن طریقے سے پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو کل ہمارے یہ مستقبل کے معمار اور وطن کی سرحدوں کے محافظ بھی ہوں گے۔انجینئر بھی، ڈاکٹر بھی، وکیل بھی اور معلم بھی ہوں گے، گویا ملکی ترقی وخوشحالی بھی والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت سے وابستہ ہے، والدین اگر بچوں کی تعلیم و تربیت بہترین طریقے سے کریں گے۔ تو ہمارا یہ سرمایہ آگے چل کر ہمارے لیے پڑا مفید ثابت ہوگا۔بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس لئے والدین کو اپنے بچے میں پیدا ہونے والی جسمانی اور ذہنی تبدیلوں سے آگاہی ہونی چاہیے تاکہ وہ بچہ خود کو تنہا نہ سمجھے اور اپنے مسائل کا حل والدین کے ساتھ مل کر تلاش کرے۔والدین کا دوستانہ رویہ بچے کے شخصی خدوخال میں خوداعتمادی پیدا کرتا ہے۔جب بچے کا اسکول میں داخلہ ہوتا ہے تو اس کے دن بھر کے معمولات میں کافی تبدیلی آ جاتی ہے۔ جیسے صبح سویرے اٹھ کر اسکول جانا، پڑھائی کے لئے تیار ہونا وغیرہ۔ ایک دم سے پرانی روش سے نئی جانب جانا بعض اوقات بچوں کے لئے پریشانی اور الجھن کا باعث ہوتا ہے جس کے لئے والدین کو انہیں ذہنی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔

شروع میں بچے اسکول جانے سے کتراتے ہیں اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ماں سے دور ہو جانے کا خوف ان کے ننھے ذہن کو الجھا دیتا ہے۔ایسے وقت میں اسے والدین کی مدد اور سپورٹ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر اسکول بھیجنے کی بجائے پیار سے سمجھانا چاہیے۔سکول میں استاد بھی اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی ابتدائی ذہنی کیفیات کو سمجھنے اور ان کو سنبھالنے کے لئے مونٹیسوری استاد کی خاص تربیت کی جاتی ہے لیکن والدین کا فرض ہے کہ بچے کو اسکول بھیجنے سے پہلے اس کی گھریلو تربیت کریں۔اسے اسکول سے متعلق مثبت باتیں بتائیں جو اس کے پہلے دن کے خوف کو دُور کرنے میں مددکر سکیں۔اسے بتائیں کہ اسکول میں اس کا وقت اچھا گزرے گا۔ نئے نئے دوستوں سے ملاقات ہو گی۔ پلے لینڈ کی طرح جھولے ہوں گے۔ نئی اور رنگین کتابیں ہوں گی۔ اس کے پسندیدہ کارٹون کردار کی تصویر والا اسکول بیگ بھی اس کو دلوایا جائے گا۔ اسکول سے واپسی پر اس کی اچھے برتاﺅکا انعام اس کی پسندیدہ جگہ پر لے جانا ہو گا۔اس نفسیاتی کونسلنگ کی بدولت بچہ اسکول سے مانوس ہو گا اور کلاس کے ماحول میں خود کو پر اعتماد محسوس کرے گا۔اسکول میں بچہ پہلی مرتبہ چند گھنٹوں کے لئے ماں سے الگ ہوتا ہے۔اس لئے ماں کی غیر موجودگی کے باعث اکثر بچے بریک میںاپنا لنچ صحیح طور پر نہیں کرتے ہیں۔ ٹیچر کا اصرار بھی رائیگاں جاتاہے۔

اپنے بچے کو دھونس جمانے والے کسی بھی بچے سے دور رہنے کی ہدایت کریں اور اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہونے پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور سختی سے جواب دینے کی تربیت دیں۔اس طرح اگر صورتحال اس کے برعکس ہو ، یعنی آپ کا بچہ جسمانی طور پر مضبوط ہے اور اسکول کے سادہ ،شرمیلے اور جسمانی طور پر کمزور بچوں پر دھونس جماتا ہے تو اسے ڈانٹ کر یا مارپیٹ کے ذریعے روکنے کی بجائے آرام سے سمجھانے کی کوشش کریں۔اس طرح وہ ایک نظم و ضبط کے مطابق زندگی گزارے گا مثلاًمکمل آرام کے بعد اسے کچھ کھیلنے کا موقع اور کھیلنے کے کچھ دیر بعد ہوم ورک۔اکثر والدین بچے کا ہوم ورک زبردستی کرواتے ہیں ایسا کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔ اگر بچہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تو اس سے زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔اسے تھوڑی دیر کے لئے کسی دلچسپ کام میں لگا دیں یا اس کی کسی پسند کی چیزکھلانے کا لالچ دے کر ہوم ورک کروایا جا سکتا ہے۔بچے کی تعلیم و تربیت ایک مشکل کام ہے۔ مگر آپ کی کوشش بچے کے ذہن میںاسکول کی اہمیت اجاگر کرنے میں کامیاب ہو گئی تو آپ کا بچہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہمیشہ آپ کا شکرگزار رہے گا اور آپ بھی اس پر فخر کر سکیں گے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img