افسانچے____ "بنجر پور کا قبرستان”

افسانچے____ "بنجر پور کا قبرستان”
فاضل شفیع بٹ
”  بابا آپ میری رائے ماننے سے کیوں قاصر ہیں۔؟ دیکھو اب میں ہرگز اس گاؤں میں نہیں رہ سکتا۔ یہ گاؤں ایک سنسان اور جنگلی علاقے میں واقع ہے۔ نہ سڑک ہے، نا اسکول ہے،نہ  بجلی ہے، نہ صاف  پانی کا کوئی انتظام ہے۔ نیٹ ورک کا مسئلہ۔ گویا یہ گاؤں ایک ویرانہ ہے جہاں سر سبز پیڑ پودوں کی ہریالی اور ان پرانے دیودار کے درختوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے”  فیض اپنے والد رحیم خان کے سامنے اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر کے نزدیک ہجرت کرنے کی ضد پر اڑا تھا۔
”  دیکھ فیضے!  تو میرا لخت جگر ہے۔ میں نے اس گاؤں میں زندگی کے ساٹھ برس گزارے ہیں۔ اس گاؤں کی مٹی کے ساتھ میری یادیں، میرا بچپن، میری جوانی منسلک ہے۔ مجھے اس گاؤں کی مٹی سے بے حد لگاؤ ہے۔ اس مٹی کی خوشبو میری روح کو تر و تازہ کرتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ یہ گاؤں ترقی یافتہ تو نہیں ہے لیکن کیا تیری پرورش میں کوئی کمی پیش آئی؟  کیا تم اعلی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے؟
 تمہیں سرکاری نوکری کیا ملی، تم نے اپنے تیور ہی بدل ڈالے۔ کیا تم گاؤں کے پرسکون اور صاف و شفاف ماحول کو لات مار کر  شہر کی آلودگی میں رہنا پسند کرو گے؟”  رحیم خان کے لہجے میں التجا تھی۔
”  نہیں بابا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ مجھے آپ سے پوری ہمدردی ہے۔ میں آپ کاخون ہوں۔ آپ مجھے سمجھتے کیوں نہیں؟  میں شہر میں رہنے کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ ہم شہرکے مضافات میں سکونت اختیار کر لیں گے۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب انٹرنیٹ اور موبائل فون کا زمانہ ہے۔ وقت نے بڑی تیزی سے کروٹ لی ہے۔ میں آپ کو اور اماں جی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ دوسری جانب مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ بابا آج کل اسکول کے بعد بچوں کی آن لائن کلاسز ہوتی ہیں جو کہ اس گاؤں میں ممکن نہیں ہے۔ مجھے بھی اپنے گاؤں بنجر پور سے بے حد پیار ہے۔ میرے ماضی کی یادیں بنجر پور سے جڑی ہوئی ہیں۔ بنجر پور سے دوری میرے دل میں ہمیشہ یادوں کی کسک بن کر بہت ستائے گی۔ لیکن میں مجبور ہوں۔ بنجر پور کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ میں اپنے بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ  نہیں کر سکتا۔ بابا میری بات مان لیں۔ یہاں کی ساری جائیداد بیچ کر ہم شہر کے مضافاتی علاقے میں آرام سے اپنی زندگی بسر کریں گے”  فیض نے قدرے اطمینان سے اپنے والد کو رضامند کرنے کی کوشش کی۔
 فیض شہر سے تقریبا سو میل کی دوری پر پہاڑی علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں بنجر پور میں رہتا تھا۔ بنجر پور کے چاروں طرف سرسبز اور گھنے جنگل تھے۔ شہر جانے کے لیے جنگل سے ایک نیم پختہ پگڈنڈی کو عبور کر کے چھوٹے سے اسٹاپ سے گاڑی مل جاتی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے فوراً بعد فیض کو ایک سرکاری نوکری ملی  اور شہر کے ایک دفتر میں تعینات ہوا۔  فیض شہر میں ایک کرایے کے مکان میں رہنے لگا  اور ہفتے میں ایک آدھ بار گھر آکر اپنے بوڑھے والدین کی خبر گیری کرتا رہتا تھا۔ فیض نے والدین کی مرضی کے مطابق شہر میں ہی شادی کر لی۔ شادی کے بعد بھی  فیض مسلسل بنجرپور آتا جاتا رہا۔ دفتری کام  اور بچوں کی تعلیم کے مسئلے نے فیض کو بنجر پور کو الوداع کہنے کے لیے مجبور کیا۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔ یہ کام  فیض کے والدین کی مرضی کے برعکس نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان کو اعتماد میں لینا فیض کے لیے کافی مشکل کام تھا اور فیض نے نہایت ہنر مندی کا اظہار کر کے بالآخر اپنے والدین کو بنجرپور سے ہجرت کر کے شہر کے مضافاتی علاقے میں ایک مکان خریدنے کے لیے رضامند کیا۔
 بنجر پور سے رحیم خان کی ہجرت سے ایک خلا سا پیدا ہوا تھا۔ لوگ رحیم خان کے جانے سے کافی دل برداشتہ تھے۔ رحیم خان گاؤں میں ایک معزز انسان کی حیثیت رکھتا تھا۔ گاؤں میں کسی بھی مسئلے کو لے کر لوگ رحیم خان سے رائے پوچھتے تھے۔ رحیم خان بنجر پور کا ایک چہیتا آدمی تھا۔ رحیم خان کا بنجر پور سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑنا گویا بنجر پور  کی آبادی کو بے سکون کرنے کے مترادف تھا۔ بنجر پور کے لوگوں کی آنکھیں نم تھیں۔ رحیم خان کے دوست و احباب اس سے بیزار تھے۔ لوگ رحیم خان کو گلے سے لگا کر زار و قطار رو رہے تھے۔ بنجر پور کا ہر فرد رحیم خان اور اس کے اہل و عیال سے آخری بار مل رہے تھے۔ رحیم خان جنگل کی پگڈنڈی پر بوجھل قدموں کے ساتھ شاید آخری بار چل رہا تھا۔
بس اسٹاپ سے رحیم خان کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ ایک ایسا سفر جس کے بارے میں رحیم خان نے  کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ ایک ایسا سفر جس کی شروعات اس کی زندگی کے آخری لمحات سے ہوئی تھی۔ رحیم خان نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر فیض کا دل جیت لیا تھا۔ اپنی خوشی اور سکون کا گلا گھونٹ کر  رحیم خان نے اپنے بیٹے کی خوشنودی کے لیے ایک عظیم قربانی کا فریضہ انجام دیا تھا۔
 شہر کے مضافات میں فیض نے بنجر پور کی ساری جائیداد بیچ کر ماڈرن کالونی میں ایک عمدہ گھر خرید لیا تھا۔ نئے گھر میں ہر طرح کی سہولیات دستیاب تھی۔ لابی میں نئے صوفے، ایک بڑا سمارٹ ٹیلی ویژن اور مصنوعی پھول دان سجے ہوئے تھے۔ فیض خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ آج  وہ اپنے ہمراہ والدین کو اپنے عالیشان بنگلے میں لا رہا تھا، جو اس کی ایک آرزو تھی۔ فیض اپنے والدین کا ایک فرمانبردار بیٹا تھا جس کا دل ماں باپ کی شفقت اور محبت سے لبریز تھا۔ رحیم خان ماڈرن کالونی میں قدم رکھتے ہی ایک الگ دنیا میں چلا گیا۔ اتنے عالیشان بنگلے رحیم  خان نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ رحیم خان کافی دیر تک نئے نئے بنگلوں کو دیکھتا رہا اور اسی اثناء میں فیض اپنے والد  سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
”  بابا۔۔۔۔ بابا۔  کہاں کھو گئے؟  یہ دیکھو اپنا مکان سامنے ہے”۔
 اپنے مکان کے سوا رحیم خان کے لیے ماڈرن کالونی میں سب کچھ پر ایا تھا۔ فیض نے عمدہ  طریقے سے اپنے ماں باپ کا خیال تو رکھا، لیکن ان کے چہروں پر افسردگی کے نمایاں تاثرات  صاف صاف عیاں تھے۔ یہاں کے لوگوں میں بنجر پور کی طرح پیار و محبت نہ تھی۔ لوگ اپنے کام سے کام رکھتے اور ہر کوئی انسان اپنے آپ میں بے حد مصروف تھا۔ فیض صبح آفس کے لیے روانہ ہوتا اور اس کے والدین اس نئے بنگلے کی چار دیواریوں میں قیدی کی طرح اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کو ٹیلی ویژن سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ کبھی کبھار گھر سے باہر چہل قدمی کے لیے نکلتے تو راستے میں کوئی ان سے بات نہ کرتا،  وہ ماڈرن کالونی میں ابھی تک اجنبی تھے۔ فیض کی بیوی بھی فرمان بردار تھی۔ مگر رحیم خان اور اماں جی کے دل سے ان کے آبائی وطن کی یاد کو نہ نکال سکی۔
 رحیم خان کے دل پہ ہجرت کا بڑا اثر گزرا۔ کہاں بنجر پور کی وہ محفلیں اور کہاں ماڈرن کالونی کی تنہائایاں!  بنجر پور کا خیال آتے ہی رحیم خان زور زور سے رونا چاہتا تھا مگر اس کی خشک آنکھوں سے آنسو نکلتے ہی نہیں تھے۔ وہ اپنی زندگی سے بیزار تھا۔ وہ تنہائی کا شکار تھا۔ رحیم خان کو بنجر پور کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔ اور بہت ستا رہی تھی۔
 گاؤں کے بل کھاتے راستے جن کے ننگے سینوں پر پت جھڑ میں  درختوں سے گرے ہوئے زرد پتوں کا قالین بچھا رہتا  اور موسم سرما میں وہ راستے سفید برف تلے دب جاتے تھے  اور بہار کی آمد کے ساتھ ہی سارے راستے ایک بار پھر سے نمودار ہو جاتے۔ رحیم خان کو بنجر پور کے جنگلوں کی وہ سرسراتی ہوئی ہوا یاد آرہی تھی  جس کی مدھم آواز سے اس پر اکثر نیند غالب آجاتی تھی۔
 رحیم خان زیادہ دنوں تک یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا اور اندر ہی اندر  بیماری نے رحیم خان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ کافی علاج و معالجہ کے بعد بھی رحیم خان کی طبیعت میں کوئی سدھار نہ آیا۔
 بسترِ مرگ پر لیٹے رحیم خان کی عیادت کے لیے ماڈرن کالونی سے ایک بھی فرد نے آنے کی زحمت نہ کی۔ بنجر پور سے جڑی اپنے ماضی کی یادوں کے لمس میں رحیم خان کی روح دھیرے دھیرے جسم چھوڑ  رہی تھی۔  رحیم خان نے برف کی سفید چادر تلے دبے راستوں اور کھیت کھلیانوں کو آخری بار اپنی آنکھوں اور روح میں اتارنے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
 گھر میں کہرا مچ گیا۔ ماڈرن کالونی میں رحیم خان کے مرنے کی خبر پھیل گئی۔ فیض پرنم آنکھوں سے  محلے کے عمر رسیدہ گورکن عیدے کے ہمراہ قبرستان میں  اپنے والد کے لیے قبر کھودنے کی تیاریوں میں مصروف تھا  کہ اسی اثناء  میں ماڈرن کالونی کی محلہ کمیٹی کے سربراہ حاجی ثناء اللہ نے  قہر آلود نظروں سے گورکن عیدے کو دیکھا  اور اسے قبر کھودنے سے روک دیا۔ حاجی ثناءاللہ نے  تیکھے لہجے میں کہا:
”  عیدے۔۔۔۔۔۔۔!!  یہ قبرستان کسی کی ایرے غیرے کی آبائی ملکیت نہیں ہے۔ یہ لوگ پتہ نہیں کہاں سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں؟  اس قبرستان پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ رحیم خان کسی بھی صورت میں اس قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتا،  جلدی سے یہ قبرستان خالی کرو”
”  جناب!  یہ قبرستان تو اہل اسلام کی ملکیت ہے اور الحمدللہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم آپ کے بھائی ہیں۔ ایساظلم نہ کریں۔ حاجی صاحب میرے بابا کی بے جان لاش جنازے کے انتظار میں ہے۔ آپ چاہیں تو محلے کمیٹی میں مجھے بھی شامل کر لیں اور جو بھی رقم طے ہوگی میں ادا کرنے کے لیے تیار ہوں”  فیض ثناءاللہ کے سامنے التجا کر رہا تھا۔
”  نہیں ایسا بالکل نہیں ہو سکتا۔ یہ ہمارے اصولوں کے برعکس ہے۔ ہم قطعی  دوسری برادری کی میت کو اپنے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جب آپ نے اس بستی میں مکان خرید لیا، اس وقت کہاں تھے؟  اپنی رہائش کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مردوں کی تدفین کا بھی بندوبست کیا ہوتا تو کافی اچھا رہتا”  حاجی ثناءاللہ کا انکار واضح تھا۔
 فیض خان حاجی ثناءاللہ کے سامنے نہایت عاجزی سے گڑگڑایا مگر حاجی صاحب پر اس کی انکساری بے اثر ثابت ہوئی۔ قبرستان کا دروازہ بند کر دیا گیا اور فیض کو وہاں سے نکال دیا گیا۔
 رحیم خان کی لاش کو کفن میں لپیٹ لیا گیا۔ محض دو گز زمین کے ٹکڑے کی تلاش تھی۔ فیض ماڈرن کالونی میں پاگلوں کی طرح ہر ایک سے التجاء کر رہا تھا۔ وہ اب اپنے بابا کے لیے الگ سے قبرستان خریدنا چاہتا تھا اور اس چیز کے لیے وہ منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار تھا۔ حاجی ثناءاللہ کو اس بات کی بھنک لگ گئی۔ اس نے ڈھونڈتے ڈھونڈتے فیض کو مسجد کے احاطے میں پایا۔ ثنا اللہ نے پیار سے فیض کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہنے لگا:
”  فیض بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں محلہ کمیٹی کا سربراہ ہوں اور میں اصولوں کی خلاف ورزی بالکل بھی نہیں کر سکتا۔ میں تمہارے غم میں برابر کا شریک ہوں۔ آپ میرے بیٹے جیسے ہو۔ میری مجبوری کو سمجھو۔  میں محلے والوں کو کیا جواب دوں گا۔
 لیکن آپ فکر نہ کریں۔ اب میں نے بہت غور و فکر کے بعد اپنی تھوڑی سی زمین آپ کو بیچنے کا ارادہ کیا ہے۔ میں بھی مسلمان ہوں، میری ہمدردی آپ کے ساتھ ہے”
 حاجی صاحب کی باتیں سن کر فیض کو کچھ حد تک راحت نصیب ہوئی اور اس نے فوراً زمین خریدنے کی حامی بھر لی۔ حاجی ثناءاللہ نے مزید کہا:
”  دیکھو فیض بیٹے مسجد کے پیچھے جو زمین ہے، وہ میری ہے۔ کسی زمانے میں سرکاری زمین ہوا کرتی تھی لیکن میں نے کافی تگ و دو کے بعد اس پر اپنا قبضہ قائم کیا۔ اسی میں سے تھوڑی سی زمین بیچ رہا ہوں۔ آپ تین لاکھ روپے کا بندوبست کریں اور  میت کی تدفین میں دیری نہ کریں کیونکہ تدفین میں دیر کرنا گناہ عظیم ہے”.
 فیض نے بوجھل دل سے حاجی ثناء اللہ کی پیشکش قبول کی اور دو گواہان کی موجودگی میں تعزیت کے دن گذرجانے کے بعد تین لاکھ روپیہ ادا کرنے کا اقرار کرلیا۔
 حاجی صاحب نے مسجد میں لاؤڈ سپیکر پر رحیم خان کی نماز جنازہ کے لیے محلے کے لوگوں کو مدعو کیا۔ رحیم خان کے جنازے کو کاندھا دینے والوں کی ایک بڑی تعداد نمودار ہوئی۔ مسجد کے احاطے میں حاجی ثناءاللہ کی امامت میں رحیم خان کا نماز جنازہ ادا کیا گیا اور رحیم  خان کی میت کو مسجد کے پیچھے دفن کیا گیا۔
 تعزیت کے دن گذرنے کے بعد فیض نے اپنی زوجہ کا زیور بیچ کر حاجی ثناء اللہ کے گھر جاکر گواہان کی موجودگی میں تین لاکھ روپیہ اس کے حوالے کیےاور فیض نے کچھ مدت  بعد اس تھوڑی سی زمین کی حد بندی کر کے وہاں ”  قبرستان برائے اہلیانِ بنجرپور”  کا بورڈ چڑھا دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.