ایک ملک، ایک راشن کارڈکے حوالے سے جموں کشمیر میں بھی لوگوں کو اس کے فوائدسے متعلق جانکاری فراہم کرنے کی مُہم شروع کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے خوراک اور سرکاری نظام ِتقسیم ،حکومت ہند کے سیکریٹری سنجیو چوپڑا نے جموں میں صارفین سے خطاب کرتے ہوئے اس اقدام کے فوائد سے باخبر کیا۔بی جے پی کا پہلے سے ہی یہ منشور تھا کہ ملک میں یکساں نظام ِتقسیم رائج کیا جائے تاکہ ملک کے ہر شہری کو یکساں فائدہ حاصل ہو اور اسطرح کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو ۔جموں کشمیر کا ملک کے ساتھ مکمل انضمام (یعنی دفعہ 370کے خاتمے )سے قبل مختلف قسم کی خصوصی ریاعت ملتی تھی اورراشن کی تقسیم کے حوالے سے بھی یہی قانون نافذتھا۔شہر و دیہات میں آباد سبھی مستحق افراد کو راشن کوٹا بغیر کسی رکاوٹ اور پریشانی کے ملا کرتا تھا۔سرکاری راشن گھاٹوں سے چاول ،آٹا ،کھانڈ ،تیل خاکی ،کوئلہ اوربھالن جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی چیزیںہر ضرورت مند کو ملا کرتی تھیں،لیکن ایک بات صاف اور واضح ہے کہ ان اشیایہ ضروریہ کی خرید و فروخت اور تقسیم کے دوران زبردست دھاندلیاں ہوا کرتی تھیں ۔محکمہ خوراک و رسدات کے اکثر افسران اور باقی ملازمین راشن سے بھری ٹرکوں کو ہی غائب کرتے تھے ۔اس طرح وزیر اور مشیر حضرات بھی چوری اور دھاندلیوں میں حصہ دار ہوتے تھے
۔جہاں تک غریب عوام کا تعلق تھا ،وہ فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہورہے تھے کیونکہ سرکاری گھاٹوں یا ڈیپوں پر راشن تقسیم کرتے وقت جن لوگوں کے پاس ادائیگی رقم دستیاب نہیں ہوتی تھی، اُن کا راشن بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا تھا اور صارفین کو دوسرے مہینے تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔جوں ہی نظام تقسیم میں تبدیلی آئی، تو زمینی سطح پر نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ۔اب مہینے میں کسی بھی دن صارف اپنا راشن بغیر کسی طوالت کے لے سکتا ہے کیونکہ جب تک صارف اپنے راشن کے حصے پر انگوٹھا لگا کر مہر ثبت نہیں کرتا، تب تک اُ س کا حصہ کوئی نہیں لے سکتا ہے جبکہ پُرانے ایام میں ضرورت مندوں کا یہ حصہ بھی چور بازار ی میں فروخت ہوتا تھا۔اب جبکہ تقسیم کاری میں بہتر تبدیلی آچکی ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ راشن کے نام پر اب صارفین کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے کیونکہ ہر فرد کے حصے میں صرف ۵کلو چاول اور ایک کلو آٹا ملتا ہے ۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایک آدمی مہینہ بھر صرف 5کلو چاول پر گزارہ کر سکتا ہے اور وہ بھی کشمیر وادی میں جہاں لوگ صرف چاول کھانے کے عادی ہیں۔جہاں تک آٹے کا تعلق ہے، وہ بھی نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے۔
رہا سوال کھانڈ،تیل خاکی،کوئلہ اور بھالن کا وہ تو سرے سے ہی غائب کیا گیا ہے۔ادھر بازاروں میں بھی ان چیزوں کے قیمتوں کا کوئی قرار نہیں ہے، دکاندار من چاہے دام صارف سے وصول کرلیتے ہیں۔ملک میں ایک ویدان ،ایک پردھان،ایک نشان یا ایک راشن کارڈ ہونے میں کسی بھی شہری کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے مگر جب سرکاری تقسیم ِنظام میں بنیادی ضروریات کی چیزیں دستیاب نہیں ہوں گی، یا ان چیزوں کو پرائیویٹ میں تقسیم ہونے کا قانون نافذ ہو، پھر ایک ملک ایک راشن کارڈ ہونے کا کیا فائدہ ہے۔ملک کے پا لیسی سازوں اور حکمرانوں کو اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کرنا چا ہیے تاکہ ملک کے ہر شہری کے لئے یکساںبنیادوں پر ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں سرکاری سطح پر دستیاب ہو، تب جاکر ”ون نیشن ،ون راشن کارڈکا نعرہ کامیاب ہو سکتا ہے ۔