بلدیاتی و پنچایتی انتخابات۔۔۔

بلدیاتی و پنچایتی انتخابات۔۔۔

ملک میں مضبوط پنچایتی اور بلدیاتی نظام قائم کر کے مرکزی حکومت نے عام لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچانے کا جو منصوبہ ہاتھ میں لیا ہے، وہ واقعی ملک کی جمہوریت ، ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔جموں کشمیر میں طویل وقت کے بعد بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات عمل میں لائے گئے ،اب لگ بھگ ان انتخابات کی مُدت پوری ہو نے جارہی ہے اور مرکزی حکومت نئے سرے سے جموں کشمیر یہ انتخابات کروانے جارہی ہے اور اس حوالے سے انتخابی کمیشن تمام تیاریاں کر رہا ہے۔

جموں کشمیر کی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لیڈران اپنے اپنے انداز میں عوامی حلقوں میں جارہے ہیں اور عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں محو ہیں ۔اگر چہ ابھی تک انتخابی کمیشن نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، پھر بھی سیاسی جماعتیں سرگرم نظر آرہی ہیں۔گزشتہ انتخابات میں جموں کشمیر میں موجود سب سے دو اہم سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے پنچایتی انتخابات میں براہ راست اپنے اُمید وار نہیں اُتارے تھے، تاہم درپردہ ہر کسی جمات کے افراد میدان میں موجود تھے۔گزشتہ برسوں کے دوران یہ بات صاف اور واضح ہو چکی ہے کہ ان ہی اُمید واروں کو عوامی حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی مل گئی اور انتظامی سطح پر ان ہی منتخب لوگوں کی طوطی بھی بولنے لگی۔جہاں تک سیاسی جماعتوں کے لیڈران ،سابق وزراءاور ایم ایل اے صاحبان کا تعلق ہے، لوگ انہیں بھولنے لگے کیونکہ چار برسوں سے مرکزی حکومت نے یہاں کی انتظامی لگام اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔

بہرحال آج ایسا لگ رہا ہے کہ اب کی بار تما م چھوٹی بڑی جماعتیں ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گی جو کہ ایک اچھی بات جمہوری نظام میں مانی جاتی ہے۔جہاں تک بلدیاتی اداروں سے وابستہ منتخب عوامی نمائندوں کا تعلق ہے، اُن میں زیادہ تر لوگ سیاسی اعتبار سے بے خبر اور لاعلم تھے۔ لہٰذاانتظامی افسران اور حکمران کوئی بھی کام کرتے وقت یا منصوبہ بناتے وقت اُنہیں خاطر میں نہیں لاتے تھے ،شاید یہی وجہ ہے کہ کئی منتخب ممبران ناراض ہیں اور اُن کا الزام ہے کہ سرکار اُنہیں وہ اختیارات دینے میں ناکام ہو گئی ہے جو اُنہیں ملک کا آئین و دستور دے رہا تھا۔بہر حال زمینی سطح پر عوامی فلاع و بہبود کے لئے لازمی ہے کہ بلدیاتی اور پنچایتی نظام مضبوط ہو اور ایسے اُمیدوار میدان میں اُتارے جائیںجن کی عوامی حلقوں میں اچھی خاصی شناخت بھی ہو اور انہیں آئین و قانون کے بارے میںبھی اچھی خاصی علمیت ہو، تاکہ وہ عوام کی خاطر بحیثیت منتخب ترجمان کے بہتر ڈھنگ سے کام کر سکےں، جو مرکزی حکومت کا اصل مقصد بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.