منشیات کی وباءملی ٹنسی سے خطر ناک

منشیات کی وباءملی ٹنسی سے خطر ناک

منشیات کے زبردست پھیلاﺅ نے نہ صرف ہماری نئی پود کودیمک کی طرح چاٹنا شروع کیا ہے بلکہ گھر کے بڑوں کے لئے بھی نوجوانوں کی یہ بُری لت مشکلات لے کر آرہی ہے۔اعداد وشمار کے مطابق وادی کشمیر میں 85فیصد نوجوان طبقہ مختلف نشے کے عادی بن چکا ہے، جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔مختلف سرکاری ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے لیکر پاکستان اور پنجاب کے راستوں سے وادی میں مختلف اقسام کا ڈرگ لایا جارہا ہے اور اس طرح وادی کے اسکولوں،کالجوں اور دانشگاہوں میں زیر تعلیم بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح 80کی دہائی کے دوران اسکولوں، کالجوں اور دانشگاہوں میں زیر تعلیم بچوں کو ایک مخصوص لیٹریچر کےذریعے سے ٹارگیٹ کیا گیا اور اُن کے ذہن میں ایسی تعلیم بھر دی گئی جس سے نہ صرف اہل وادی اپنی شناخت اور پہچان کھوچکی بلکہ کشمیریت پر بھی کاری ضرب لگ گئی۔

1990کے بعد پیش آئے حالات اُسی مُہم کا خمیازہ ہے جو فی الحال آج بھی جاری ہے۔وادی کے لوگ فرقوں میں تقسیم ہوئے ،ہندو مسلم بھائی چارے کو پارہ پارہ کیا گیا۔مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا گیا ۔جن بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چا ہیے تھیں، اُن کے ہاتھوں میں بندوق اور پتھر تھمائے گئے۔نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ وادی کی ایک نسل تباہ ہو گئی اور ہر گھر میں روشنی کے چراغ گُل ہوئے،ہر سو آہ و بقا کی پکار سننے کو مل رہی تھی۔حکومتی اداروں نے اگر چہ کسی حد تک اس تباہی کو روکنے میں کامیابی حاصل کی لیکن ادھر ایک اور مصیبت ڈرگ کی صورت میں نمودار ہوئی جس نے ہر گھر کو اپنا نشانہ بنایا۔آج کھلے عام ہر نکڑ اور ہر چوراہے پر نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ڈرگ کا استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔گزشتہ چند مہینوں کے دوران اگر چہ پولیس نے درجنوں ڈرگ اسمگلروں کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا اور اُن کی جائیداد یںبھی ضبط کیں لیکن پھر بھی روز بروز ڈرگ کے پھیلاﺅ میں شدت نظر آرہی ہے۔جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران کہا کہ اُن افراد کی اب خیر نہیں جو بچوں میں ڈرگ اور ہتھیار تقسیم کر کے اُن کا مستقبل تاریک بنا رہے ہیں۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ ڈرگ میں ملوث افراد کسی بھی قسم کا جُرم کر سکتے ہیں۔قتل ،لوٹ مار،آتشزنی اور دہشت گردی ایسے افراد کے لئے ایک معمولی سی بات بن جاتی ہے۔یہاں یہ بات کہنا بے حد لازمی ہے کہ ڈرگ کے کاروبار میں بڑے مگر مچھ ملوث ہیں، جو سماج میں ’وائٹ کالر‘ دکھ رہے ہیں لیکن اندر سے اُن کے کالے کرتوت سماج کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔اگر ایل جی انتظامیہ واقعی منشیات کے بدعت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، پھر بڑے مگر مچھوں کو جال میں پھنسانا لازمی ہے ۔اسکولوں ،کالجوں اور دانشگاہوں میں زیر تعلیم بچوں کو منشیات کے مضر اثرات اور اس سے پھیل رہی تباہی سے آگا ہ کرنے کے لئے ایک زور دار مُہم چلانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ بچے اس لت سے دور رہے اور وہ لوگ خودبخود ختم ہو جائیں جو اس وادی میں ڈرگ کےذریعے سے افرا تفری اور دہشت پھیلانے چاہتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ والدین کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوںگی اور بچوں پر نظر گزر رکھنی ہوگی کہیں وہ دشمن کے جھانسے میں نہ آجائے۔تب جاکر اس تباہی کا خاتمہ ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.