وادی کے کوکر ناگ علاقے میں پیش آئے ملی ٹنٹ واقعہ میں ملک کے تین بڑے افسروں کے جاں بحق ہونے کی خبر پھیلتے ہی ہے، پورے ملک میں غم و غصے کی لہر ڈوڑ گئی ۔جہاںفوجی کرنل من پریت سنگھ اورمیجر اشیش کے آبائی علاقوں میں لوگوں نے پاکستان اور ملی ٹنٹوں کے خلاف احتجاج کیا، وہیں دوسری جانب جموں کشمیر پولیس کے ڈی ایس پی ہمایو ںبٹ کینماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کر کے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ عام لوگ خون خرابہ نہیں چاہتے ہیں۔گزشتہ تین برسوں کے دوران یہ سب سے خطرناک ملی ٹنٹ حملہ مانا جاتا ہے جس دوران ایک ساتھ ملک کو اتنا سارا نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے گزشتہ چار برسوں سے ملی ٹنٹوں پر سیکورٹی فورسز کا مسلسل دباﺅ رہا اور ملی ٹنٹوں نے خاموشی اختیار کی۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ پاکستان جن ابتر سیاسی و اقتصادی حالات سے گزر رہا ہے ،ان حالات میں پاکستان اُن کو زیادہ مدد نہیں دے سکتا ہے۔لیکن ایک بات صاف نظر آرہی ہے کہ وادی میں ملی ٹنسی کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہو ا ہے اور نہ ہی پوری طرح سے علیحدگی پسند سوچ کا خاتمہ ہو ا ہے ۔
جہاں تک از جان ہوئے فوجی افسران اور پولیس افسر کا تعلق ہے، انہیں شروع سے ہی یہ بات ذہن میں ہوتی ہوگی کہ ہمیں ملک کی حفاظت اور عام لوگوں کی بھلائی کے لئے کوئی بھی قربانی دینی ہے جو کہ ہر جوان کا مقصد ہوتا ہے۔اسی لئے وہ ہمیشہ ہر مرحلے پر جان کی بازیلگانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔جہاں تک جمو ں کشمیر پولیس کا تعلق ہے، اس فورس نے ملی ٹنسی مخالف کارروائیوں کے دوران بہت زیادہ قربانی دی ہیں ۔از جان ہوئے پولیس افسر کے والد نے اپنی خدمات جموں کشمیر پولس میں انجام دئے ہیںاور ڈی آئی جی کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔انہیں بخوبی معلوم تھا کہ پولیس میں موجودہ پُر تشدد حالات میں کام کرنا کس قدر مشکل اور دشوار ہے، اس کے باوجود انہوں نے اپنے بیٹے کو پولیس محکمے میں بھرتی کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور جب گزشتہ شام وہ اپنے جوان بیٹے کا جنازہ اپنے کندھوں پرآخری آرام گاہ کی طرف لے جارہے تھے ،تب ان کے حوصلے بلند تھے۔
کس کو معلوم نہیں کہ ایک باپ کے لئے سب سے بڑا عذاب اور آزمائش تب ہو تی ہے جب وہ اپنے جوان بیٹے کا جنازہ اپنے کندھوں پر اُٹھاتا ہے۔بہر حال اس طرح کی کارروائیوں سے نہ ہی فوج اور پولیس کے حوصلے کمزور ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ملی ٹنٹوں کی اس طرح کی کارروائیوں سے ملک کے جانباز ہمت ہار سکتے ہیں لیکن ایک بات لازمی ہے کہ ہمارے اُن سیاستدانوں کا ان واقعات سے سبق حاصل کرنی چاہئے جو ہمسایہ ملک سے بات کرنے اور بہتر تعلقات قائم کرنے کے بیانات داغ دیتے ہیں۔ملک کی حکومت کو ملی ٹنٹوں اور انکے معاونین کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہیے تاکہ عوام میں یہ بدظنی نہ پھیل جائے کہ دشمن طاقتور ہے۔