وادی میں شدید گرمی کی وجہ سے نہ صرف عام لوگ پریشان ہورہے ہیںبلکہ کسان اور کاشتکاربھی اقتصادی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں۔گزشتہ تین مہینوں کے دوران بارشیں نہ ہونے کے برابر ہوئی ہیںجبکہ گزشتہ روز کے درجہ حرارت نے 132سالہ ریکاڑ توڑ دیا ۔کہا جارہا ہے کہ ایک صدی قبل ماہ ستمبر میں اس طری کادرجہ حرارت ریکاڑ کیا گیاتھا۔موسمیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں ۔گرمی اور سردی کی شدت میں بھی اسی لئے بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اورفصلوں کو بھی شدیدنقصان پہنچرہا ہے۔
جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے موسم کے اعتبار سے یہ وادی زمین پر جنت کا ٹکڑا تصور کیا جاتا تھا ،لیکن اب یہاں بھی موسمی تبدیلی کی وجہ سے لوگ پریشان ہو رہے ہیں، جہاں تک کسانوں کا تعلق ہے خشک سالی کی وجہ سے فصلوںاور پھلوں کو بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔باغ مالکان کا کہنا ہے کہ خشک سالی کی وجہ سے ان کے میوہ باغات میں مختلف قسم کی بیماریاں لگ چکی ہیں اور اس طرح سے سیب اور دیگر میوہ جات کو زبر دست نقصان پہنچ چکا ہے۔
ان باغ مالکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیمیائی ادویات کا جہاں تک تعلق ہے ،وہ بھی اب کام نہیں کر رہی ہیں۔بارشیں نہ ہونے سے سیبوں پر لال رنگ بھی نہیں چڑھاہے اور نہ ہی ان کا سائز بڑھ گیا ،اسطرح ملک کی مختلف منڈیوں میں کشمیری پھلوں کی قیمتیں بھی گررہی ہیں۔اخروٹ ،ناشپاتی ،بادام اور انگور کا بھی یہی حال ہو چکا ہے۔میوہ صنعت سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے ان کی سال بھر کی کمائی کا دارمدار اچھی فصل پر ہوتا ہے لیکن موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے امسال بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔پہاڑی علاقوں میں مکئی اور دالوں کا بھی یہی حال ہے۔
آمدنی سے زیادہ لاگت آچکی ہے لہٰذازمیندارذہنی تناﺅ کاشکار ہو چکے ہیں۔جہاں تک دھان کی فصل کا تعلق ہے ، وہ بھیکچا ہی نظر آرہا ہے۔یہ بات طے ہے کہ دینا بھر کے ساتھ ساتھ وادی میں بھی گلوبل وارمنگ کا اثر نمایاں طور پر نظر آنے لگا ہے اور آنے والے وقت کے دوران اس سے زیادہ نقصان دہ اسباب بھی سامنے آئیں گے۔اس تباہی کا اعلاج حکمران اور ماہرین کس طرح کریں گے، یہ اُن کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
حکام کا اگر چہ دعویٰ ہے کہ دنیاکے دیگر حصوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی سائنسی ترقی بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ تاہم موسمی تبدیلوں سے وجود میں آرہی مشکلات کا سامنا لوگ کیسے کریں گے، ایک بہت بڑا سوال ہے۔بہر حال ایک بات واضح ہے کہ اس ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیوں کے لئے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ حکمران بھی ذمہ دار ہیں، جنہوں نے قدرتی نظام کے کیساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے آبی ذخائر،پہاڑوں اور زرعی زمین کو ختم کر کے ان پر بڑے بڑے تعمیرات کھڑی کی گئی ہیں ۔انسان اگر چاہیےتو اپنی غلطیوں کو سدھار سکتا ہے اور آنے والے کل کے لئے آج سے ہی قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے مل جُل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔شرط یہ ہے کہ عوام اور حکمرانوں میں احساس اور بیداری پیدا ہو،جس کا کہیں نہ کہیں فقدان نظر آرہا ہے۔





