سیا ست کا دوسرا نام عبادت ہے کیونکہ ایک بہترین سیاست دان اپنے ارد گرد آباد لوگوں کی بہتر ڈھنگ سے خدمت کرسکتا ہے۔جمہوری نظام میں یہ خوبی موجو دہے کہ اپنی خدمت کرنے کے لئے لوگ اپنانمائندہ خود ووٹ ڈالکر چن لیتے ہیں۔ اس کے برعکس جن مالک میں بادشاہی نظام ہے ،وہاں کے لوگ بہر حال بادشاہ کے سامنے بے خوف ہو کر اپنا جائز مطالبہ بھی نہیں رکھ پاتے ہیں۔اس کے برعکس جمہوری حکومتوں میں ملک کے نمائندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے اس ملک کی یہ خوبی ہے یہاں اقتدارسے ہی جموری نظام پھلا پھولا ہے جو اس ملک کی ترقی اور عوامی خوشحالی کا سبب بن چکا ہے۔
جموں کشمیر کا جہاں تک تعلق ہے یہ ملک کا تاج مانا جاتا ہے، ملک کے اس حصے میں تقسیم ملک کے ساتھ ہی سیاسی عدم استحکام کی شروعات ہوئی ہے ۔اس حصے میں جمہوری نظام کو عوامی اُمنگوں کے عین مطابق صحیح معنوں میں پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا،جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ہمسایہ ملک نے کمزوریوں پرنظر پڑھتے ہی اپنی دال گلنے کی ہر وقت کوشش کی۔1990 سے لیکر 2019تک جموں کشمیر کے عوام کو کن مسائل و مشکلات سے گزرنا پڑا ، سب لوگ اس بات سے بخوبی واقفہیں۔مرکزی سرکار نے تین دہائیوں کے طویل عرصے کے دوران امن و سلامتی بحال کرنے کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لائیںلیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی،اب چونکہ 2019میں ملک کے سب سے بڑے جمہوری ادارے یعنی پارلیمنٹ نے ایک خصوصی بل کے ذریعے سے نہ صرف اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیابلکہ جموں و کشمیر کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنا دیا،اس طرح انتظامی اُمور کی لگام براہ راست مرکزی سرکار نے اپنے ہاتھوں میں رکھ دی۔اس عمل سے جموں کشمیر خاصکر وادی میں نہ صرف امن و امان بحال ہوا ہے بلکہ انتظامی نظام میں بھی بہتری آئی ہے۔
رشوت ستانی میں کسی حد تک ٹھہراﺅ آیا۔آن لائن سہولیات سے لوگوں کا وقت اور پیسہ بچ گیا،سرکاری دفاتر میں کام کررہے ملازمین کو جوب دہ بنایا گیا،ملک دشمن عناصر،سیاستدانوں اور دورخی پالیسی اپنانے والے ملازمین اور دیگر لوگوں کویک رو بنایا گیا،تعمیر و ترقی کا ہر سو چرچا دیکھنے کو مال رہا ہے جو کہ ایک اچھی بات اور مثبت تبدیلی عوامی حلقوں میں تصور کی جاتی ہے۔
اب چونکہ چار سال کا وقت بہت ہوتا ہے لہٰذا اب لوگوں کو اپنی حکومت بنانے کا موقعہ فراہم کیا جانا چاہئے ۔مرکزی سرکار کو جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دینا چاہئے اور انتخابات کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ لوگ اپنے صحیح اور بہتر نمائندے منتخب کرسکیں۔مگر انتخابات سے قبل مرکزی سرکا ر اور انتخابی کمیشن کو مل جُل کر ایک ایسی مُہم چلانی چاہئے جس کے ذریعے سے لوگوں میں یہ بیداری پیدا کی جاسکے کہ عوامی حکومت کا اصل مقصد کیا ہو تا ہے ،ووٹ کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے اور اُن سیاستدانوں کو نا اہل قرار دینا چاہئے جنہوں نے سرکاری رقومات کا غبن کر کے اپنے لئے عیش و عشرت کا سامان خرید لیا ہے جبکہ عام لوگوں کو سیاست کی آڑ میں تباہ و بُرباد کیا ہے،تب جاکر یہ ممکن ہے کہ نئے سیاسی لوگ سیاست کی اصل مغز کو سمجھ سکیں تب جا کر یہ ممکن ہے کہ جموں کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہ سکے گاجوکہ مرکزی سرکا ر کا پارلیمنٹ میں فیصلہ لیتے وقت مدعا و مقصد تھا ۔





