نوجوان نسل کسی بھی ملک ،سماج اور معاشرے کا اہم ترین ستون تصور کیا جاتا ہے ۔اگر یہ پود مضبوط ،تندرست،قابل اور باہوش ہو گی توپورا ملک یا سماج مضبوط ہوگا۔بات وادی کشمیر کی کریں گے جہاںگزشتہ تین دہائیوں کے نامسائدحالات کے دوران نوجوان طبقہ ہر لحاظ سے متاثر رہا۔یہاں کے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے ذہنی تناﺅ کا شکار ہوئے۔بیشتر نوجوان غلط صحبت میں پھنس کر نشہ کرنے لگے، اسطرح انہوں نے نہ صرف اپنی حسین زندگی تباہ و بُرباد کی بلکہ اپنے والدین کی ہنسی خوشی بھی چھین لی۔جہاں تک وادی میں روز گار کے وسائل کا تعلق ہے، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔اس بات کا اندازہ یہاں سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ باہر کے مزدوروں نے یہاں آکر صرف مئی کے مہینے میں لگ بھگ 20 کروڑ روپے پنیری لگانے کے دوران دیہی علاقوں سے کما کر لئے جو کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔
جہاں تک باغ مالکان کا تعلق ہے وہ بھی اب میوہ درختوں سے اُتارنے کے لئے باہر کے مزدور وں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔جہاں تک تعمیراتی کاموں کا تعلق ہے، وہ سب باہر کے ہی کاریگر انجام دیتے ہیں۔ترکھان،رنگساز،لوہاراور گلکار بھی اب باہر کے ہی نظر آتے ہیں۔جہاں تک دستکاری صنعت کا تعلق ہے، اب کوئی کشمیری اس صنعت کے ساتھ خود کو وابستہ نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ وادی کے نوجوان بزرگوں کی دی ہوئی اس صنعت کو اختیار کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔گزشتہ تین دہایﺅں کے دوران وادی کے نوجوان صرف اور صرف سرکاری نوکریوں کے پیچھے پڑ گئے ۔یہ دوسری بات یہ ہے کہ سیاستدانوں اور سرکاری افسران نے لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں کو مختلف سرکاری محکموں میں بطور ڈیلی ویجر بھرتی کرکے اُن کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا۔مختلف محکموں میں تعینات یہ ڈیلی ویجر چند ہزار روپیوں کے پیچھے یہ سوچ کر بھاگ گئے کہ ایک نہ ایک دن اُن کی ملازمت مستقل ہو جائے گی، جو بہر حال اُن کے لئے خواب بن کے رہ گیا ہے۔ان ڈیلی ویجروں کی حالت اس قدر خراب ہےکہ وہ اپنے اہل و عیال کو دو وقت کی روٹی دینے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
جہاں تک ان کے بچوں کا تعلق ہے وہ بہتر دھنگ سے اچھی تعلیم حاصل نہ پاتے ہیں۔بہر حال اب نہ وہ خراب حالات ویسے رہے اور نہ ہی وہ سادگی کا زمانہ رہا ،جب گھر کا ایک فرد کماتا تھا اور دس لوگوں کو کھلاتا تھابلکہ آج کل تو نوزائد بچے پر بھی ہزاروں روپے ماہانہ خرچ ہو تے ہیں ۔گھر کے سبھی افراد کمانے کے باوجود بھی ضروریات زندگی پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔جہاں تک آج کی نو جوان پود کا تعلق ہے اُنہیں روز مرہ کے بہت سارے خرچات ہو تے ہیں،اگر وہ محنت کر کے نہیں کمائے گے تو وہ غلط کام کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں جیسا کہ آج کل دیکھنے کو مل رہا ہے کہ نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد غلط کاموں میں ملوث ہو رہی ہے، جو ہر گز اچھی بات نہیں ہے۔وادی کے نوجوانوں کے لئے حکام نے اچھی خاصی روزگار کمانے کی اسکمیں متعارف کرائی ہیں اور اس حوالے سے وہ بار بار اعلانات بھی کرتے ہیں لیکن شرط صرف یہی ہے کہ نوجوں پود محنت کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور آگے آئیں۔پرائیویٹ سیکٹر میں بہت سارے کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
نوجوانوں کو مضبوطی سے ارادہ کرنا چا ہیے ¿جبکہ بہار اور بنگال کے اُن نوجوانوں سے سبق حاصل کر ناچا ہیے جو ہزاروں میل کا سفرطے کرنے کے بعد اس وادی سے اچھا خاصہ پیسا کما کر لے جاتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتے ہیں۔





