کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

پانڈو پر قبضہ
بھارتی جارحیت ختم ہو گئی تھی لیکن اوڑی کے محاذ پر جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ تصادم ، چھاپے، گولہ باری اور فضائی حملے اب بھی روزانہ کا معمول تھے اور دونوں طرف جانی نقصانات ہو رہے تھے۔ اگر مزید کچھ ہفتوں یا مہینوں تک یہی ہماری طرز زندگی رہا تو ظاہر ہے ہماری دفاع میں کچھ بہتری لازمی تھی۔ پچھلے تین ہفتوں تک ماﺅنٹین گنز کے ایک حصہ کو دریا کے دوسرے کنارے پر پانڈو پہاڑ کی ڈھلوان پر مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا تھا اور وہ چکوٹی اور اس کے پیچھے واقع 5میل سڑک پر واقع ہمارے مورچے پر غالب تھے۔ حتیٰ کہ رات کے وقت بھی نقل و حرکت غیر محفوظ بن گئی تھی۔
دریا کے پار گنز کے ایک مخصوص حصے میں ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ کیونکہ علیحدگی میں رہتے ہوئے ان سے نمٹا نہیں جا سکتا۔ اگر ہم پانڈو کو فتح کرنے میں کامیاب ہو سکے تو ہی یہ کام ختم ہو سکتا تھا۔ اور یہی و کام ہے جسے ہمارے جوان کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ کافی بڑا کام ہو گا جو کہ ہمارے ذرائع اور حتیٰ کہ کردار سے آگے تھا کہ سختی کے ساتھ دفاع تھا۔ تاہم اب ڈویژنل کمانڈر نے اجازت دی تھی۔ پانڈو ایک دیہات اور پہاڑ کا نام ہے جس پر 9000 فٹ کی اونچائی پر یہ دیہات واقع ہے یہ پہاڑ درحقیقت ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا ایک سلسلہ ہے۔
اگر کوئی شخص بیب ڈوری کی چوٹی پر کھڑا ہو کر پانڈو کی طرف رخ کرتے ہوئے دشمن کی طرف دیکھے، تو اسے دائیں طرف تقریباً 3000 فٹ نیچے دریا ئے جہلم نظر آئے گا۔ دریا کے دوسری طرف ایک شاہراہ نظر آئے گا جو پہاڑوں کی طرف مڑتی ہے۔ سڑک سے پرے پہاڑ ہیں جو تقریباً 7000 تا 8000 فٹ کی اونچائی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بیب ڈوری کی بائیں جانب ناگا ٹیک کو دیکھا جا سکتا ہے جو کہ بیب ڈوری کے اوپر 1000 فٹ والی اونچائی پر کھڑا ہے۔ اس کے آگے 11500 فٹ روسی کوٹا ہے قدرے سامنے سنگ نظر آئے گا جو 10500 فٹ اونچا ہے۔
راست سامنے کی طرف دیکھنے پر پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آئے گا جو کہ تقریباً دریا کے متوازی دوڑتا اور اس کے درمیان ایک جگہ پانڈو دیہات نظر آئے گا اور اس کے تقریباً درمیان ایک گھاس والے میدان میں جو کہ بارش کے موسم میں اکثر گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا پانڈو دیہات نظر آئے گا۔
اگر زمین کا مشاہدہ کرنے کےلئے پانڈو تک جانا ہو تو ہمی بیب ڈوری 6000 فٹ نیچے سے 2500 فٹ نیچے دریا کے کنارے پر جانا ہوگا۔
اس علاقے میں زیادہ سبزا زار یا درخت نہیں ہیں۔ لیکن یہ چٹانوں اور نالوں کے ذریعے پانڈو سے چھپا ہوا ہو سکتا ہے۔ بیب ڈوری کے نیچے ہمیں ایک جھرنے کو پار کرنا ہوگا جو کہ برسات کے موسم میں بہتا ہے۔ اس کے بالکل پرے ایک پہاڑی ہے جو ہمارے محاذ کے دوسری طرف دائیں سے بائیں جانب ایک اسکرین کی طرح 6300 فٹ تا 7000 فٹ اونچائی والی تین چوٹیوں کے ساتھ دوڑتی ہے۔ یہ پہاڑی درختوں سے بھری ہے ، اور تین چوٹیاں بھارتی فوجوں کے زیر قبضہ ہیں۔
بائیں چوٹی سے تقریباً 1 1/2 میل طویل ایک منڈیر گزرتی ہے جو پانڈو تک جاتی ہے۔ یہ منڈیر تنگ ہے اور صنوبر کے درختوں سے پوری طرح ڈھی ہوئی ہے۔ مرنیت شدید طور پر محدود ہے اور یہاں پر چلنا مشکل ہے۔ اگر کوئی اس منڈیر کے ساتھ پانڈو پر حملہ کر رہا ہو تو لڑائی شدید ہو گی کیونکہ ہر ایک چھوٹے سے مورچے پر صرف سامنے اور پہاڑ کے اوپر سے ہی سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ پورے فائدے دفاعی فوج کے حق میں ہی ہوں گے۔ ہمیں پتہ چلا کہ بھارتی اس منڈیر ے درمیان ایک مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔
آگے پانڈو کی جانب یہ منڈیر دائیں اور بائیں سے متعدد کیلوں سے مل جاتی ہے۔ جو کہ مکمل طور پر درختوں سے گھری ہوئی۔ عمودی اور تنگ ہے ۔ اس پر بھی بھارتیوں کے کچھ پوسٹ ہیں۔ پانڈو سے تھوڑے ہی فاصلے پر درخت ختم ہوتے ہیں اور ہم ایک گھسا والے اوپری حصے پر آتے ہیں۔ جو کہ 50 تا 200 گز چوڑا اور تقریباً 700 تا 800 گز لمبا ہے۔ اس کا اوپری حصہ بھارتیوں کے زیر قبضہ ہے اور ان پر حملہ کرنے کےلئے ہمیں پہاڑ پر کھلے میدان میں جانا پڑے گا۔ یہاں پر حملہ آوروں کو تمام دفاعی فائرنگ اور ہلاکت خیز اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پانڈو سے یہ پہاری سلسلہ دو شاخہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ دائیں طرف یہ 9300 فٹ اوپر چلا جاتا ہے۔ جہاں سے دریا اس کے پرے سڑک اور چکوٹی میں موجود ہماری فوج نظر آتی ہے۔ بائیں جانب والی منڈیر ایک بار پھر دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے اور مزید دو میل آگے کی طرف یعنی چھوٹا قاضی ناگ میں 10000فٹ کی اونچائی تقریباً 2میل یا آس پاس چلا جاتا ہے اور آگے ہمارے بائیں جانب 13500 فٹ تک قاضی ناگ کی طرف جاتی ہے۔
عمومی طور پر ہم اس پورے علاقے کو پانڈو کہتے ہیں۔ پانڈو سے دونوں پہلو سے منسلک مقامی شاطرانہ اہمیت کو اس بت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم نے اسے دہلی کا خفیہ نام دیا تھا اور ہمیں بعد میں دشمن کی دستاویزات سے اس بات کا پتہ لگا تھا کہ انہوں نے اسے کراچی کا نام دیا تھا ۔ مقای لوگ بھی پانڈو کو کافی اہمیت کی جگہ تصور کرتے ہیں۔ ان کی روایات کے مطابق کچھ صدیوں قبل انہوں نے مغلوں کی فوجوں کو یہاں پر روک دیا تھا اور اس کے بعد مغل پیر پنچال پاس سے گزر کر چلے گئے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ وہم پایا جاتا تھا کہ پانڈو ایک نا قابل تسخیر جگہ ہے۔
اس علاقے میں دشمن کی مجموعی طاقت ہماری طاقت سے زیادہ تھی۔ اس لئے ہماری کامیابی کا واحد امکان ایسے مقام پر حملہ کرنا تھا جو کافی حد تک اہم ہو اور جہاں پر دشمن اپنی پوری طاقت کو استعمال میں نہیں لا سکے ۔ پانڈو کا دیہات اس قسم کے امکانات پیش کرتا ہے یہ بلا شبہ ایک اہم مقام تھا۔ یہاں پر دشمن کا مرکزی پڑآﺅ واقع تھا جو کہ علاقے کو قابو میں کرنے والا دماغ اور اس کے اطراف خاکہ بندی ناقص تھی۔
چکوٹی اور بیب ڈوری دونوں جگہوں پر ہمارے دفاعی مورچے پیوستہ بٹالین والے مورچے تھے جو کہ اس قدر پیوستہ تھے کہ ہر مورچے پر مکمل تین بٹالین والے بریگیڈ کے ذریعہ حملہ کرنا پڑے گا۔ جو کہ اس اصول کے تحت ہے کہ حملہ آور کو محافظ سے تقریباً تین گنا زیادہ طاقت کا حامل ہونا چاہئے۔ دشمن کی طرف کوئی ایسی پیوستہ بٹالین موجود نہیں تھی۔ اس کے بجائے وہ انہوں نے اپنے آپ کو پورے علاقے میں چھو ٹی چھوٹی ٹکریوں میں تقسیم کرکے پھیلا دیا تھا۔ یہ انتشار انہیں زیادہ تر ہمارے وسیع پیمانے پر پریشان کرنے والی سرگرمیوں کی وجہ اپنانا پڑا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی حد تک ان کے ناقص جنگی حربوں کی وجہ سے تھا۔ انہوں نے اپنے علاقوں کو ایک یا دو کمپنیوں کی طاقت پر قبضہ جما رکھا تھا اور وہ اکثر ایک دوسرے کی مدد کرنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کافی دور تھے۔
پانڈو دیہات بذات خود ایسا نظر آرہا تھا کہ یہ آدھی بٹالین کے ذریعہ زیر قبضہ ہے۔ اس علاقے کے ہمارے حملہ کا نشانہ ہونے کی صورت میں اصولی طور پر ہمیں کارروائی کرنے کےلئے ڈیڑھ بٹالین جمع کرنی ہوگی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا میں اس کارروائی کے ڈیڑھ بٹالین جمع کر سکا۔ کیونکہ اس کا ایک حصہ بطور محفوظ فوج رکھنی ہوگی۔ صرف ایک بٹالین باقی رہ جائے گی۔ جس کا مطلب دور کے مقابلے میں صرف ایک برتری ۔ لیکن یہ آزاد اور قبائلیوں کے ساتھ مل کر کافی ہو جائے گی۔
اصل نشانہ یہ تھا کہ ہم راستے ملنے والے دیگر دشمن کے فوجیوں کے ساتھ الجھے بغیر ہدف تک کیسے پہنچیں گے۔ ہمارے اور پانڈو کے درمیان بھارتی کمپنیوں کے زیر قبضہ 7000 فٹ اونچی پہاڑی اسکرین موجود تھی۔ آگے بائیں جانب سنگ میں مزید دو کمپنیاں تھیں اور اس کے علاوہ چھوٹے علاقے تھے جو پانڈو کے قریب تر رسائی کی حفاظت کر رہے تھے۔ اگر ہم ان میں سے کسی بھی جگہوں پر حملہ کریں تو ان میں سے کسی ایک پر قبضہ کرنے کےلئے ہماری پوری طاقت ختم ہو جاتی اور کسی بھی صورت میں ہمارے مور چوں میں بہتری نہیں ہوتی۔ تاہم اگر ہم کسی حد تک پانڈو تک پہنچ سکے اور اسے ہی فتح کریں تو آگے موجود تمام فوجیں بھاگنے پر مجبور ہو جائیں گی اور ان میں سے کچھ مفت میں ہمارے ہاتھ بھی لگ جائیں گے۔ پانڈو واضح طور پر پورے مورچے کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ایک واضح ہدف ہے، اس لئے ہمارے سامنے ابتدائی کام یہ تھا کہ ہمارے جوانوں کو راستے میں کسی جھڑپوں کی نوبت آئے بغیر پانڈو کے آس پاس جانے کے راستوں کو تلاش کرنا تھا۔ ہماری جاسوسی نے یہ ظاہر کیا کہ ایسا کیا ،کیاجا سکتا ہے۔ تاہم اس کارروائی میں رات کے وقت خفیہ طور پر دشمن کے محاذکو پار کرنا اور اس کے مورچوں کے درمیان ایک معقول فاصلے پر پہنچنا رات کی تاریکی میں تقریباً6000 فٹ اوپر چڑھنا اور اس کے بعد حملہ کرنے سے پہلے کسی جگہ پر آرام کرنا شامل تھا۔ یہ تمام کام ایک رات میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نقل و حرکت کے لئے دو راتیں درکار ہوںگی۔ اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمیں دو رات اور ایک دن دشمن کے علاقے میں ان کے ہر اول دستے کے پیچھے اور مکمل طور پر پوشیدہ رہنا ہوگا۔ اس کے لئے چھتیس گھنٹوں والا ایک سنگین خطرہ مول لینا ہوگا۔ میں نے اس جوکھم کو قبول کیا کیونکہ اس کے بغیر کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔

حملے کی تیاریوں کےلئے چند دن لگے۔ رد اور ہتھیاروں کو آگے منتقل کرنا تھا۔ فوجی انجینئروں نے دریائے جہلم کے پار ایک تاروں والی رسی لگوائی ۔ اس رسی کے ذریعے ایک وقت میں ایک باسکایٹ دو آدمی یا 300 پاﺅنڈ سامان دریائے جہلم کے دوسری طرف پہنچایا جا سکتا تھا۔ سامان کے ذخیرے کے دوسرے طرف قلی درکار تھے۔ انہیں جمع کیا گیا اور اس کارروائی میں جملہ 2000 قلیوں کو کام پر لگایا گیا۔ توپ خانے کو ہدف کے علاقے میں پہنچایا گیا۔ 900 گولے دستیاب تھے جو کہ دشمن کے پاس موجود مقدر کے مقابلے میں انتہائی کم تھے ان کے پاس صرف ایک دن میں ہم پر پھینکنے کے 3000 گولے موجود تھے۔ تین سو محسود قبائلی دستیاب تھے۔ انہیں فی لشکر 100 کے حساب سے تین لشکروں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے دو لشکروں کو پریشان کرنے کا کام سونپا جانا تھا۔ جبکہ تیسرے کا نام ایل 3رکھا گیا جسے ہمارے ذریعے دشمن کو بے دخل کئے جانے کے بعد ان کا تعاقب کرنے کا خصوصی کام سونپا گیا ۔ بالآخر بیب ڈوری کے سامنے والے جھرنے پر ایک لکڑی کا پل لگوانا تھا۔ یہ کام گزشتہ رات کو انجام دیا گیا 17 جولائی تک ہم تیار تھے۔ دوسرے دن سورج طلوع ہونے کے بعد ہماری حملہ آور فوج ایک بٹالین نے جھرنے کو پار کیا اور خفیہ طور پر دشمن کے علاقے میں گھس گئے۔ بارش جس نے نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا کی تھی۔ ناگزیر آوازوں کو چھپا دیا۔ جیسے ہی جوان آگے بڑھے وہ ٹیلیفون تار کو بچھاتے رہے اور بریگیڈ کے مرکزی مقام پر میرے ساتھ رابطہ میں رہے۔ صرف ہنگامی صورتحال میں استعمال کرنے کےلئے وائر لیس سیٹ کو آگے لے جایا گیا ۔ لیکن انہیں خاموش رکھا گیا۔ چند گھنٹوں بعد وہ اپنے خفیہ اڈے پر پہنچ گئے جو کہ محاذ سے تقریباً ایک میل دوری پر واقع تھا۔ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
دوسرے دن جو کہ کارروائی کا دوسرا دن تھا حملہ آور فوج کو رات شروع ہونے تک اپنے اڈے پر چھپا رہنا تھا۔ ہمارا توپ خانہ خاموش رہا تاکہ کسی بھی غیر معمولی واقعے کا اشارہ نہ مل سکے۔ تاہم اس رات میں نے قبائلیوں ، آزاد اور اسکاﺅٹس کو مختلف مقامات پر پریشان کرنے والی سرگرمیاں انجام دینے کے کام کا آغاز کرنے کا حکم دیا۔ یہ کام حفاظت کے ساتھ کیا جا سکتا تھا اور کوئی خاص شکوک پیدا ہونے کی توقع نہیں تھی۔
یہ دن ابر آلود اور بارش سے پر تھا اس لئے دشمن کے ہوائی جہاز نظر نہیں آرہے تھے۔ پریشان کرنے والے دستوں کو مشغول رکھا اور سوائے ایک واقعے کے جو خطرناک ثابت ہوا پوری کارروائی اچھی طرح چلتی رہی ۔ حملہ آور فوج کا ایک گشتی جاسوس دشمن کے گشتی جوان کے بالکل قریب آگیا۔ فوجی دستے تیزی سے نکلنا شروع ہوئے۔ لیکن ان کا مقامی رہنما کچڑ میں پھسل گیا اور دشمن کے ہاتھ لگ گیا ۔ وہ اسے پانڈو میں اپنے مرکز پر لے گئے۔ جہاں پر اسے گہری تفتیش کانشانہ بنایا گیا۔ لیکن خوش قسمتی سے اس نے کوئی بات نہیں بتائی۔ شدید افسر دگی کے بعد شام کو ہم نے اس بات کا اطمینان حاصل کیا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور چنانچہ دوسری رات ہماری فوج اپنی اگلی کارروائی کا آغاز کرنے کےلئے تیار تھی۔
ہماری فوج پانڈو کی جانب دو یکساںصفوں دائیں اور بائیں کی شکل میں دو مختلف سمتوں سے پانڈو کی جانب بڑھ گئی۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ یہ صفیں صبح سے پہلے پہاڑ کے اوپر پہنچنی تھیں۔ یہ بات اہم تھی کہ وہ اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر حفاظت کے ساتھ اوپر پہنچیں۔ صرف اور صرف اسی صورت میں وہ دشمن کے اپنے آپ کو مضبوط بنا سکنے سے پہلے پانڈو پر حملہ کر سکیں گے۔
دو صفوں کا سفر مشکل میدانوں پر مشتمل تھا ۔ ہر صف کو اس رات 5000 فٹ سے زائد اونچائی کو عبور کرنا تھا۔ رات انتہائی تاریک تھی اور جانے کےلئے کوئی راستہ نہیں تھا۔ منڈیریں تیز وار عمودی تھیں۔ میدان کیچڑ آلود تھا اور چٹانیں پھسلن والی تھی یہ کسی بھی معیار سے رات والی ایک مشکل نقل و حرکت تھی۔ اس لئے فطری طور پر معقول افسردگی اور خوف ہماری طرف چھایا ہوا تھا ۔
لیکن دوسری صبح نے اچھی خبر لائی ۔ صبح کے 6بجے دائیں صف کا میابی کے ساتھ اپنے ہدف پر پہنچ گئی اور 9300 فٹ اونچی چوٹی پر پانڈو کے پہلو میں اپنا پڑاﺅ ڈالا وار اس کا نظارہ کرنے لگی۔ حالانکہ دشمن نے عجلت کے ساتھ جوابی حملہ کیا۔ اس کا کوئی اثر نہیں پڑا اور دو پہر تک دائیں صف پانڈو سے صرف 500 گزکی دوری پر تھی۔ جہاں پر اس نے بائیں بازو کے اوپر پہنچ کر اس سے ملنے کا انتظار کیا۔ اس وقت تک کارروائی میری توقع کے مطابق کامیابی کے ساتھ چلتی رہی۔ میں تقریباً خوش تھا۔ دشمن کو پوری طرح بے خبری میں رکھا گیا تھا۔ بہت جلد پانڈو پر حملہ ہونے جا رہا تھا اور لڑائی ختم ہو جائے گی۔
لیکن بائیں صف وقت پر نہیں پہنچی۔ میری بے خبری میں اسے سلسلہ وار بد قسمتی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا راستہ شدید طور پر مشکل ثابت ہوا اندھیرے میں اس کی ٹیلیفون تار پہاڑ سے نیچے گر گئی اور نصف شب کے بعد اس کا میرے ساتھ رابطہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد غیر متوقع طور پر دشمن کے نرغے میں پہنچ گئے اور تاریک رات میں جھڑپیں ہوئیں۔ ا س سے تیس جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ صبح تک اسے اوپر پہنچنے کےلئے کافی لمبا راستہ طے کرنا پڑا۔ لیکن اس کی نقل و حرکت اب مزید خفیہ نہیں تھی۔ اس پر شدید طور پر گولہ باری کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود اس نے پُر مشقت پیش رفت جاری رکھی اور پھر پسپا ہونے والی بھارتی فوج غیر متوقع طور پر اس کے درمیان میں آگئی اور اسے مزید غیر منظم بنا دیا۔ چنانچہ اس کا سفر کئی گھنٹے تاخیر کا شکار رہا۔ حملے کی تیاریاں ہونے تک اسے شام ہو گئی ۔ لیکن اس وقت یہ بہت زیادہ پست ہمت اور غیر منظم ہو گئی تھی جس نے پانڈو کے ڈھلوانوں پر حملوںکی کوششیں کی۔
یہ کوشش ناکام ہوئی اور یہ صف مکمل طور پر الجھن کا شکار ہو گئی۔ رات کی تاریکی میں پورا کنٹرول قابو سے باہر ہو گیا۔ جو ان اورافسران ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ وہ تھکان کا اور مایوسی کاشکار تھے۔ جوان اجازت کے بغیر واپس جانے لگے۔ زیادہ سے زیادہ جوانوں نے ایسا کیا۔ آدھی رات تک میرے اس کے بر خلاف حکم کے باوجود بائیں صف پوری طرح سے پسپائی کا شکار تھی اور صبح کے ۴ بجے دشمن کے علاقے سے مکمل طور پر باہر نکل گئی تھی اور دو بارہ بیب ڈوری کے ابتدائی مقام پر واپس پہنچ گئی تھی۔

صبح سویرے یہ دیکھ کر کہ بائیں صف نکل گئی ہے آزاد سکاوٹس اور قبائلیوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے واپس جانا شروع کیا کہ کھیل ختم ہو گیا۔
چنانچہ چوتھے دن کی صبح جو کچھ بھی باقی بچا تھا وہ بائیں صف (نصف بٹالین) دشمن کے علاقے میں 9300 فٹ کی اونچائی پرتنہا بسیرا کئے ہوئے تھی۔ جن پر دشمن کے ہوائی جہازوں کے ذریعے گولہ باری اور بمباری کی جا رہی تھی۔ یہ صورتحال ہیبت ناک تھی۔ لیکن میں نے سوچا صورتحال اس قدر خراب نہیں ہے جیسے کہ سامنے سے نظر آرہی تھی۔ دو مقامات اب بھی ہمارے حق میں تھے ۔ پہلا دائیں صف کو جو کہ علیحدہ تھی اور اب بھی مدان میں جمی ہوئی تھی۔ اگر اسے مضبوطی فراہم کی جا سکتی ہے تو یہ حملوں کو جاری رکھ سکے گی۔ لیکن اس کےلئے مزید چوبیس گھنٹے لگ سکتے تھے اور اسے تنہا رہنا پڑ سکتا تھا ،میں نے بقیہ نصف کو اگلے دن پانڈو پر حملے کرنے کےلئے 9300 فٹ کی اونچائی پر موجود دائیں صف کے ساتھ شامل ہونے کےلئے اسی رات کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
دوسرایہ کہ دشمن کے ذہن پر غور کرنا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ دشمن کو ہمارے جوانوں کو اچانک غیر متوقع طور پر ان کے درمیان پا کر شدید جھٹکا پہنچا ہوگا۔ ہمارے جوانوں کی پسپائی کے بارے میں انہیں درست معلومات نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف ہماری پریشان کرنے کے سرگرمیوں نے انہیں شدید الجھن میں ڈال دیا ہوگا۔ اور ایک زیادہ سنجیدہ دائیں صف وہاں پر موجود تھی۔ پوری طرح سے ان پر منڈلا رہی تھی۔ اب تک انہیں اس کی اصل طاقت کا اندازہ نہیں ہوگا۔ وہ اس کی صرف پریشان کرنے کی موجود سے واقف ہونگے۔ چنانچہ وہ شک کے عالم میں ہمارے اگلے اقدام کےلئے انتظار کریں گے اور کارروائی میں مزید تاخیر ہو جائے تو ان کا شک میں مزید خراب ہوگا۔ یہ بات ہمارے حق میں تھی۔ اب ہمیں بس اتنا کرنا تھا کہ انہیں ذہنی سکون حاصل کرنے نہ دیا جائے۔ اس لئے میں نے پریشان کرنے والے دستوں کو ان کے اصل کام پر واپس بھیج دیا تاکہ دشمن کو اگلے دن تک الجھنوں کا شکار رکھا جائے۔
اگلی صبح یعنی پانچویں دن استحکام دینے والی فوج دائیں صف کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور چند گھنٹوں میں پانڈو پر حملے کا آغاز متوقع تھا۔ لیکن اب افسران اور جوانوں میں کافی شکوک اور جھجک واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ اور یقیناً اس کے لئے بنیاد بھی موجود تھی۔ کیونکہ اب پانڈو میں ہمیں مقامی فوقیت حاصل نہیں تھی جیسا کہ ہم نے توقع کی تھی، اچانک نقل و حرکت کا یہ مقصد تھا کہ دشمن کے ذریعے پانڈو کی حفاظت کئے جانے کے دوران نصف بٹالین رہ جائے گی۔ ہم اپنے طور پر اس کے خلاف ایک بٹالین لائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ایک کے مقابلے میں دو مادی سبقت حاصل رہے گی۔ اس اہم مقام پر حملہ کرنے کے فیصلہ کن موقع پر یہ بات ہمارے جوانوں نے سوچی تھی۔ لیکن صورتحال ایسی نہیں تھی۔
جیسے ہی دو فوجیں 900 فٹ اونچائی والے پہاڑ پر تقریباً 500 میٹر کی دوری پر ایک دوسرے کے مد مقابل آگئیں ،طاقت کا موازنہ واضح طور پر ہمارے لئے غیر مواقف تھا۔ بھارتی فوج اگلے محاذ میں پست ہونے والے دو مورچوں کے جوانوں پر مشتمل تھی جو پانڈو میں شامل ہو گئے تھے۔ چنانچہ ان کی طاقت ہم سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں بھاری اضافی فوائد دستیاب تھے۔
وہ اچھی طرح تیاری والے دفاعی مورچوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جبکہ ہمیں ان پر حملہ کرنے کےلئے کھلے میدان سے گزرنا تھا۔ اس کے پاس متعدد مشین گنیں تھیں جبکہ ہمارے پس کوئی مشین گن موجود نہیں تھی۔ ان کی مدد کے لئے ہوائی جہاز تھے۔ جبکہ ہمارے پاس کوئی ہوائی جہاز نہیں تھا اور ان کا توپ خانے والی مدد کم از کم چار گنا زیادہ تھی۔
اس پر اس طرح سے نظر ڈالیں، مادی موزانہ واضح طور پر ناموافق تھا کہ دائیں بازو کا کمانڈر حملہ کر منسوخ کروانے کی توقع رکھے ہوئے تھا۔ کمانڈر اور دیگر جوانوں کے ذہن سے جھجک اور خوف و ڈر کو ختم کرنے کےلئے میں نے دہلی (پانڈو ) پر حملہ کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا افسران کی قیادت میں سنگین حملے کے طور پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ میں نے اس غیر مصالحت پسندانہ حکم کو صرف ایک سبب کی وجہ سے جاری کر دیا۔ وہ سبب دیکھا نہیں جا سکتا تھا لیکن اسے محسوس کیا جا سکتا تھا اور وہ سبب تھا دشمن کا دماغ جو کہ میرے خیال میں شدید طور پر ہل گیا تھا۔ اور اسے کس قدر جھٹکا لگا تھا کہ اس کا میں نے اندازا بھی نہیں لگایا تھا۔
جب پریشان کرنے والے دستے گزشتہ دوپہر کے وقت آگے بڑھ گئے ،تو ان میں سے چند نے غلطی سے یہ خیال کیا کہ بھارتی پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ قبائلیوں کے لشکروں میں سے ایک لشکر عجلت کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور رات کی تاریکی میں پانڈو کے اندر داخل ہوا۔ بعد ی لشکر پیچھے ہٹ گیا۔ لیکن دوسرے لشکر نے فائرنگ کی آوازیں سن کر دوسری طرف سے پانڈو کی طرف آگے بڑھنا شروع کیا۔ جس کے نتیجے پھر ایک بار تصادم ہوا۔ شام کے اکثر حصے میں اسی نوعیت کے واقعات پیش آئے اور حالانکہ وہ معمولی قسم کے تصادم تھے۔ لیکن بھارتیوں نے اسے شدید حملے تصور کئے۔

بالآخر ہمارے جوانوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ اگلے دن تک دائیں بازو کے حملے کا انتظار کرنے کے ابھی کچھ نہیں کرنا ہے۔ تاہم انہیں اب بھی کئی گھنٹے پہاڑ پر گزارنا پڑا۔ اونچائی پر شدید سردی تھی، اس لئے انہوں نے کسی بھی قسم کی پراہ کئے بغیر اپنے آپ کو گرم رکھنے کےلئے آگ جلائی۔ بہت جلد بھارتیوں نے دیکھا کہ پانڈو کے اطراف آگ کا ہالہ بڑھ رہا ہے۔ یہ ان کی حوصلے سے باہر کی بات تھی۔ مقامی لوگوں کے مطابق جو اس وقت وہاں پر موجود تھے، بھارتیوں نے نا امیدی سے خود ہی یہ خیال کیا کہ وہ گھیرے میں آگئے ہیں اور انہیں اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ ڈر و خوف کے علم میں انتظار کرتے رہے اور گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں پوری رات کاٹی۔
دن کی روشنی میں بھارتیوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ حقیقت میں گھیرے میں نہیں تھے لیکن اس بات میں انہیں کوئی امید افزاءخبر دکھائی نہیں دی۔ انہوں نے اس میں جان بچا کر بھاگنے کا ایک موقع دیکھا۔
مادی طو رپر اب تک انہیں کسی حقیقی شدتوں کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا۔ گزشتہ چار دنوں کی تمام کارروائیاں صرف معمولی تصادم تھے۔ جس کے نتیجہ میں صرف معمولی جانی نقصانات ہوئے تھے ،ان کے جوان ان کے ہتھیار ان کے توپ خانے، ان کے ہوائی جہاز اب بھی وہاں پر موجود تھے اور ان کا پورا دفاعی مورچہ صحیح سالم تھا۔ لیکن بے خبری اور بے یقینی کی صورتحال نے انہیں مارا تھا، ان کے حوصلے کو ختم کرنے کےلئے بہت کچھ واقع ہوا تھا کہ انہوں نے لڑنے کی خواہش کھو دی تھی۔ انہیں یہ خوف لا حق ہوا کہ ان پر ایک طوفان آنے والا ہے ا ور وہ اس کا انتظار کرنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ بس یہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے لئے بچ نکلنے کا راستہ اب بھی کھلا ہوا ہے اور وہ اس راستے کو اپنانا چاہتے تھے اس لئے ان کے توپ خانے نے گولہ باری کے بھاری پروگرام کو شروع کیا جس کے سائے میں وہ پانڈو کو چھوڑ کر نکلنا چاہتے تھے اور گھنے جنگل نے انہیں اپنی نقل و حرکت کو چھپانے میں مدد دی۔ چنانچہ جب دائیں بازو نے حملے کےلئے پیش رفت کی تو انہیں وہاں پہنچ کر اس بات کا پتہ چلا کہ بھارتی پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں۔
لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں تھا۔ یہ بات سن کہ کر بھارتیوں نے خود سپردگی کی ہے، میں نے تیسرے لشکر کو دشمن کی پسپائی کے راستوں میں ان کا تعاقب کرنے کےلئے بھیج دیا۔ علاقے میں موجود دیگر قبائلی بھی اس تعاقب میں شامل ہو گئے۔ بھارتی الجھن کے عالم میں فرار ہو کر ڈھلوان والے گھنے جنگل سے گزر رہے تھے۔ وہاں پر قبائلی لومڑیوں کے جھنڈ کی طرح ان پر جھپٹ پڑے۔ وہ اپنے دفاعی مورچہ میں رہ کر جس تباہی سے بچ سکتے تھے۔ اس کا سامنا انہیں اپنی فراری میں کرنا پڑا۔ قبائلی زیادہ تر خنجروں کے ساتھ چوبیس گھنٹے ان کا تعاقب کرتے رہے۔ یہاں کتنے بھارتی افسران اور جوانوں نے اپنی جان گنوائی۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کی تعداد تقریباً تین سو تھی۔ جب قبائلی واپس آئے تو ان میں سے اکثر بھارتی فوجیوں کے یونیفارم میں ملبوس تھے اور اپنے ساتھ کافی ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر آلات لے آئے،گولہ بارود کے ساتھ تقریباً 130 رائفل حاصل ہوئے۔ تقریباً پانچ لاکھ راﺅنڈ گولہ بارود بکسوں میں پایا گیا۔ دو بڑی اور چودہ 2انچ والی چھوٹی توپیں، ایک مشین گن اور تقریباً ایک ہزار چھوٹی توپیں اور توپ خانے کے گولے اور ایک بہت بڑی مقدار میں راشن کا مال غنیمت کے طور پر موصول ہوا۔
ایک اہم مقام پانڈو کے سقط کے ساتھ بقیہ دفاعی مورچے ریت کے گھروندوں کی طرح گر گئے۔ جیسے ہی ہم نے اپنی گنیں سنگ 10500 فٹ) میں واقع دو کمپنیوں کی طرف موڑ دی۔ انہوں نے اس پہاڑ کو بھی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اسکاﺅٹس اور آزاد نے اس علاقے کو اپنے ماتحت کر لیا۔ اب ایک عمومی پیش رفت شروع ہوئی اور دو گھنٹوں بعد جب فوجیں چھوٹا قاضی ناگ 10000فٹ سے صرف 200 گز دوری پر تھی۔ جو کہ اس پہاڑی سلسلے کی سب سے اونچی پہاڑی تھی جس میں بارہمولہ اور اوڑی جی ایچ کیو کے درمیان ہندوستانی موصلات کی لائنیں تھیں۔ ہمیں اپنی کارروائی کو روکنے اور مزید آگے نہ بڑھنے کے احکام موصول ہوئے۔
ہم نے 6 میل پیش رفت کی تھی اور 90 اسکوئر میل ہمارے قبضے میں آگیا تھا۔ لیکن پانڈو کی کہانی ایک بہادر شخص کے تذکرے کے بغیر نا مکمل ہو گئی۔ جن کے نام صوبیدار کالا خان تھا۔ جو وہاں پر گہری سبز گھاس کے نیچے مدفعن ہیں۔ پچھلے مہینوں کے دوران اس کے حوصلہ مند چھاپوں اور پریشان کرنے والے مشن نے پیمانے کو ہمارے حق میں کر دیا تھا اور پانڈو میں اس حملہ میں ان کی شہادت ہوئی تھی وہ اپنی زندگی میں ہی ایک افسانوی شخصیت بن گئے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی روح اب بھی اس علاقے میں چھائی ہوئی ہے اور اکثر انسانی روپ اس لباس میں جس میں وہ اپنے آخری دن ملبوس تھے نظر آتے ہیں۔ اس پہاڑ پر آنے والے کئی انجان نو واردوں جنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کالا خان زندہ نہیں ہیں۔ کالا خان کی روح نے ان کا استقبال کیاتھا اور انہیں اس بارے میں درست تفصیلات بتائی تھی کہ پانڈو کو کس طرح فتح کیا گیا تھا۔ یہاں پر قبائلیوں کے کار آمد ہونے کے بارے میں ایک بات کا تذکرہ غیر متعلق نہیں ہوگا۔ اکثر یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ فوجی نقطہ نظر سے کشمیر میں قبائلی غیر ضروری ہیں اور اکثر یہ کہ وہ ایک بوجھ ہیں۔ میں اس خیال سے پوری طرح غیر متفق ہوں۔ اس کے بر خلاف کشمیر جیسے خطے میں ہماری فوج آزاد اور قبائلیوں کو ملا کر درست طور پر استعمال کیا جائے تو وہ حیرت انگیز طور پر ایک اچھا امتراج ہوگا۔ فوجیوں نے ایک مستحکم مرکز فراہم کیا جس کے گرد رہ کر آزاد اپنی وسیع تر حرکت پذیری کے اور زمین کی معلومات کے ساتھ ایک وسیع اسکین تشکیل دیتے ہیں جو کہ محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ کمانڈر کے کان اور آنکھ بن گئے ہیں۔ اس سے قبائلی اپنے چھاپوں، گھات والے حملوں اور نا قابل پیش گوئی طبیعت کے ذریعے اپنی تعداد کے اعتبار سے غیر متناسب ہونے کے باوجود کافی بڑے علاقے میں غالب آجاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ وہاں پر فوج کی طرح اپنی جارحانہ کارروائیوں کے لئے وہاں پر موجود رہتے ہیں جس کی عمومی طور پر توقع نہیں کی جاتی۔
ابتد اءمیں ان قبائلیوں کے ساتھ کئی ناکامی کے واقعات بھی پیش آئے تھے ،پہلے تو اس لئے کہ ان کے کوئی قائد نہیں تھے اور اس کے بعد جب فوجی افسران موقع پر ہوتے ہیں تو ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ انہیں کئی سے سنبھالا جائے، ہم نے توقع کی تھی کہ قبائلی، آزاد اور با قاعدہ فوجیوں کی طرح برتاﺅ کریں گے۔ یقیناً ایسا نہیں ہو سکا۔
اختتام پر مختلف مقامات میں انہیں قطعی طور پر مناسب طور پر سنبھالنا شروع کیا گیا۔ ہمیں اپنی معلومات کو جمع کرنے اور حکمت عملی کو ترتیب دینے کا موقع نہیں ملا تھا۔ لیکن اگر جنگ جاری رہتی تو یقیناً ایسا کیا جا سکتا تھا ،یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بعد کے چند مہینوں میں کیا ہوتا اور قبائلیوں اور آزاد نے مکمل باہمی تعاون کے ساتھ ہمارے فوجیوں کے ذریعہ فراہم کردہ اکثر مقامات پر کم از کم 200 میلوں پر مشتمل پہاڑیوں وادیوں اور جنگلات والے محاذوں پر کم از کم 200 میلوں پر مشتمل پہاڑیوں ، وادیوں اور جنگلات والے محاذوں سے جنہیں کوئی بھی مو ثر طور پر ختم کرنے کی توقع نہیں کر سکتا تھا ۔ بڑے پیمانے والے حملے شروع کئے۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.