مہنگائی کی وجہ سے جس طرح عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی کا بے قابو جن غریبوں کو نگل رہا ہے ۔ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بھوک و افلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے عالمی سطح پر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کے متعددممالک میں مہنگائی کے خوفناک آسیب نے عوام کو مصائب سے دوچار کر دیا ہے۔
مہنگائی کی اس صورتحال نے دہشت ناک منہ کھول رکھا ہے۔ اس خوفناک صورتحال نے وادی کشمیر کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیا ءکی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جو غریب عوام پر ظلم ہے۔
اور موجودہ دور میں اس ظلم کے خلاف کوئی بھی آواز بلند نہیں کر رہا۔جس طرح مہنگائی کے عفریت نے عوام کو جکڑ لیا ہے، اس کے سامنے ہر کوئی بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ گوشت اور مرگ کی بات چھوڑ دیں ،سبزیاں بھی اب عام لوگوں کی قوت ِ خرید سے باہر ہے ۔گوکہ مرغ کی قیمت فی کلو 110سے115روپے ہے ۔
تاہم ساگ کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور ساگ 140روپے فی کلو پہنچ چکا ہے ۔ٹماٹر کا رنگ تو پہلے مزید لال ہوچکا ہے ،جس نے عام لوگوں کو ذائقہ سے دور رکھا ہے جبکہ پیاز نے بھی آنسو نکالنا شروع کردیا ہے ۔آلو ،مٹر ،بین ، شملہ مرچ ، کدو ،گاجر ،مولی ،پالک ،بنڈی ،کریلا ،تریلا ،مشروم یہاں تک کہ کشمیری جڑی بوٹی ”سوژل “ اور دنیہ کی قیمتیں قوت ِ خرید سے باہر ہے ۔اب کچن سے ذائقہ کی مہک ہی آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے ۔
گوشت کی قیمت 700روپے ہے جبکہ سری پائے، کھد، زبان اور دیگر ذائقے بھی اب دستر خوان سے غائب ہیں ۔ادویات کی بات ہی نہ کریں تو ،ادویات کے حوالے کشمیربہت بڑی منڈی ہے اور شعبہ صحت نے اب باضابطہ طور پر ایک کاروبار یشکلمیں ڈھل چکا ہے۔نجی اسپتالوں میں ڈاکٹر سے طبی معائینہ کرانے کے لئے کم ازکم 500سے 1000روپے فیس ادا کرنی پڑتی ہے ۔تعلیم کا حال اس سے ابتر ہے ۔نجی تعلیمی اداروں نے ماہانہ ٹیوشن فیس میں اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کیا ہے ۔
الغرض یہ ہے کہ نہ صحت نہ تعلیم نہ رہائش آخر غریب کے لیے ہے کیا؟ مہنگائی کے باعث کئی افراد خود کشی کرنے پرمجبورہو رہے ہیں۔ اس وقت ہر چیز کی قیمت آو¿ٹ آف کنٹرول ہوچکی ہے۔ جسے دیکھ کر لگتا ہے حکومت غربت کی بجائے غریب ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ رسائی کے عمل میں بہتری لائے جائے ۔قیمتوں کو کنٹرول میں کرنے کے لئے جامعہ پالیسی ملکی سطح پر ترتیب دی جائے اور ریاستی سطح پر بھی عوام کو راحت پہنچا نے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے ۔خاموشی اختیار کرنا اور وضاحتیں دینا بڑھتی مہنگائی کا حل نہیں ہے ۔
ملک پانچویں معیشت اور آنے والے سالوں میں یہ تیسری معیشت بھی بن سکتا ہے ۔تاہم اس کا ثمر عوام کو ملنا چاہئے ،کیوں کہ عوام کو اعداد وشمار پر زندہ نہیں رہنا ہے ۔





