بدھ, دسمبر ۱۷, ۲۰۲۵
5.1 C
Srinagar

نئی فرصت گاہ لیکن پانی پانی ۔۔۔۔

جموں وکشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کو ایک خاص منصوبے کے تحت ’سمارٹ ‘ بنایا جارہا ہے ۔اس منصوبے کے تحت درجنوں ترقیاتی پروجیکٹوں کے کام ہاتھ میں لئے گئے ہیں ۔دعویٰ کیا جارہا ہے ،درجنوں پروجیکٹوں کو مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ درجنوں پروجیکٹوں پر تعمیری کام جاری ہے ۔ مرکزی حکومت کے سمارٹ سٹی منصوبے کا جہاں تعلق ہے ، اس میں کوئی کمی یا سوراخ تو نہیں ہے ،لیکن کشمیر میں اس منصوبے میں کئی سوراخیں ہیں اور ایسے سوراخ ہیں ،جنہیں بھرنے کے لئے خزانہ عامرہ خالی ہوجائے گا ،لیکن یہ سوراخیں نہیں بھر جائیں گی ۔نتیجہ پانی پانی ہونا ۔سرینگر میں سمارٹ سٹی منصوبہ بھی پانی پانی ہورہا ہے ۔ویسے اردو میںکئی ایسے محاورے ہیں جیسے ’پانی پانی ہونا ‘ یعنی شرمندہ ہونا ،چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے یعنی شرم محسو س کرنا ‘ ایسا ہی حال سرینگر سمارٹ سٹی کا ہے ۔بارش کیا ہوتی ہے کہ پورے شہر میں جل تھل ایک ہوجاتا ہے ۔شہر کے بیشتر علاقے ناقص ڈرنیج سسٹم کے باعث زیر آب آجاتے ہیں ۔تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ڈرنیج سسٹم ناکارہ نہیں ہے بلکہ بارشیں زیادہ ہورہی ہیں اور جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں ،تو پانی بھی زیادہ جمع ہوجاتا ہے ۔

پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک دن صوبہ سندھ میں بارشوں کے سبب سیلابی صورتِ حال پیدا ہونے پر کہا تھا’ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے‘۔ اس بات کو لے کر پاکستان میں کہرام سا مچ گیا تھا ۔ مگر اب تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ اس جملے میں ایسی کیا بات تھی جس کو اُس وقت کے ملک کے وزیر اعظم کو بھی دوہرانے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔دراصل بلاول بھٹو زرداری کی اردو ہم سب کی جیسی ہی ہے ،انہوں نے کہا تھا ’ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے، جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے ‘۔بلاول بھٹو نے سائنسی اعتبار سے اپنی بات کہی تھی ۔تاہم مخالفین کو توبہانہ ملنا چاہیے ۔اس لئے کہتے ہیں کہ تنقید ہو یا مذاق ،کوئی نقل اُتار نے پر آجائے تو پھر زبان کہاں رُکتی ہے۔

پولو ویو مارکیٹ سرینگر میں گزشتہ روز دکانداروں نے جب اپنے دکان کھولے ،تو وہ دکانوں کے اندر دریائے جہلم کا منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے ۔جموں وکشمیر کی موجودہ اپوزیشن کو بھی جموں وکشمیر کی انتظامیہ اور سمارٹ سٹی منصوبے پر سوال کھڑے کرنے کا موقع ملا ۔کسی نے کہا ’ نام نہاد سمارٹ سٹی پانی پانی ،ناقص منصوبہ بندی کے لئے ذمہ دار کون؟‘۔تنقیداور اختلاف ِ رائے جمہوریت کی روح ہے ، تاہم پوچھا جاسکتا ہے کہ سات دہائیوں تک عوامی منڈیٹ کے نام پر اقتدار میں رہنے والے ارباب ِ اقتدار نے اس شہر کو بہتر بنانے کے لئے کون کون سے منصوبے ترتیب دیئے اور کتنے منصوبے کامیاب رہے ‘۔لہٰذا موجودہ صورت ِ حال کے لئے آپ زیادہ ذمہ دار ہیں ،کیوں کہ انتظامی امور کی بھاگ دوڑ زیادہ تر اوقات آپ کے پاس ہی رہی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بارش جہاں باراں رحمت ہے، وہاں مصائب کا سبب بھی ہے۔ تاہم اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ناقص منصوبہ بندی کی نشاندہی نہ ہو ۔حال ہی میں سمارٹ سٹی منصوبے کے تحت پولو ویو مارکیٹ کو شہریوں ،سیلانیوں اور سیاحوں کے لئے شام کی ایک نئی فرصت گاہ کے بطور ترقی دی گئی ۔اب اگر دکاندار وں کے دکان دریائے جہلم میں تبدیل ہوئے ،تو سوال تو پوچھا جاسکتا ہے ،تنقید تو کی جاسکتی ہے ،ناقص منصوبہ بندی کی نشاندہی تو کی جاسکتی ہے ۔گوگہ حکام نے کہا کہ یہ ناقص ڈرنیج سسٹم نہیں ہے ۔

اگر واقعی ایسا ہی ہے ،تو وجوہات کو جاننے کے لئے یہ کہنا کافی نہیں کہ حقائق کا پتہ لگایا جائے گا ۔اس کے لئے عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔دکانداروں کو بھاری نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے ۔اس کی ذمہ داری تو کسی پر آتی ہے ۔پہلے بھی تو بارشیں ہوتی تھیں ،لیکن ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے تھے ۔اب ایسے مناظر کیوں دیکھنے کو مل رہے ہیں؟ ۔یہ ڈرامہ بازی تو نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کیوں کہ دکانداروں کی مصنوعات تباہ ہوگئیں ،اُنہیں نقصان سے دوچار ہونا پڑا ۔قابل انجینئراور فن ِ تعمیر کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ مستقبل میں سب کچھ پانی پانی نہ ہو ۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img