میلہ کھیر بھوانی بھائی چارے کی علامت

میلہ کھیر بھوانی بھائی چارے کی علامت

وادی کشمیر صوفیوں ،ریشیوں اور منیوں کی وادی مانی جاتی ہے ،جہاں مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ صدیوں سے اےک ساتھ مل کر رہتے تھے اور ہمیشہ سے آپسی بھائی چارے کی روایات قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی نہ صرف مشکل حالات میں مدد کرتے تھے بلکہ اےک دوسرے کے غم اور خوشی میں بغیر کسی تعصب کے ہر وقت شریک ہوتے تھے۔پورے بر صغیر میں وادی ہی ایک ایسی جگہ ہے جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں اس بھائی چارے اورمذہبی رواداری کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ پھر اپنے ماضی اور میراث پر واپس آگئے اور پھر وہ بھائی چارہ قائم ہوا ،اس طرح دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں اور وہ بے بس ہو گیا۔ 1990 کے ابتدئی ایام میں وادی میں ملی ٹنسی کی تیز رفتار آندھی آگئی، جس نے نہ صرف مذہبی رواداری ،آپسی بھائی چارے کی شمع گُل کی بلکہ انسانیت کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا۔

کشمیری پنڈت اپنا گھر بار ،زمین جائیدایں اور آبائی وطن چھوڑ کرجموں اور ملک کی مختلف ریاستوں مےں بھاگ گئے اور وہاں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے کے لئے مجبور ہوگئے۔اس آندھی نے یہاں کی اکثریتی برادری کو بھی نہیں بخشا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بچے والدین سے اور والدین بچوں سے محروم ہو گئے۔بہو ،بیٹیوں،ماﺅںاور بہنوں کی عصمتیں تار تار ہوئیں ۔ہر طرف آگ و آہن کا کھیل چل رہا تھا، اس کھیل میں صوفیوں ،سنتوں ،ریشیوں او ر منیوں کی زیارت گاہیں بھی نذر آتش کی گئیں ۔تین دہائیوں کے طویل وقت کے بعد پھر ایک بار وہ پُرانا وقت لوٹ کر آیا ۔ کشمیر ی پنڈت اور مسلم برادری کے لوگ پھر سے ایک ہونے لگے ۔ماتا کھیر بھوانی تولہ مولہ کے استاپن پر کشمیر ی پنڈت حاضری دینے آگئے اور کشمیر ی مسلمان اُن کے استقبال کے لئے کھڑا رہا۔کسی کشمیری پنڈت کی موت ہوگئی ،تو مسلم برادری کے لوگوں نے اُن کے آخری رسومات پورے کئے۔ غرض ملی ٹنسی کی خطرناک اور تباہ کُن آندھی بھی اُس صدیوں پُرانے بھائی چارے کو ختم نہ کر سکی ،جو ان صوفیوں سنتوں کی دین ہے۔

کل ماتا کھیر بھوانی کا سالانہ میلہ یعنی جیشٹھاآشٹمی منائی جارہی ہے۔ جموں اور ملک کے دیگر حصوں سے ہزاروں کی تعداد میں یاتری ماتا کے دربار میں حاضری دینے کے لئے آئیںگے جو پوجاپارٹ میں حصہ لیکر ملک اور جموں کشمیر کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دُعا کریں گے لیکن دونوں مذاہب کے لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ صرف دُعا کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے ،نا ہی میڈیا پر بیانات داغنے سے اور ناہی زمینی صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے بلکہ اس کے لئے دونوں طرف کے عوام کو مل جُل کر کام کرنا چاہیے ،دشمن کی چالوں کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔کشمیر ی پنڈتوں کو واپس اپنے آبائی علاقوں میں آنا چاہیے ، چہ جائے اُن کی نوجوان پود تین دہایﺅں میں بہت آگے پہنچ چکی ہے وہ ہر محاز پر ترقی کر رہی ہے ۔ لیکن اُنہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے آباو اجداد کی سرزمین کو چھوڑ کر یا اپنی مسلم برادری کو چھوڑ کر کبھی بھی اپنی پہچان اور شناخت قائم نہیں رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو سکے پنڈت برادری کو مستقل بنیادوں پر واپس آنا چاہئے اور مل جُل کر صدیوں پُرانی روایات ،بھائی چارے کو برقرار رکھنا چاہئے تب جاکر ماتاکھیربھوانی بھی اس قوم پر خوش ہوں گی۔جو واقعی مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی علامت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.