سرکاری سطح پر وادی میں اُولڈ ایج ہومز بنائے جا رہے ہیں اور ان عمارتوں پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، تاکہ یہاں اُن بزرگوں کی بہتر ڈھنگ سے دیکھ بھال ہو سکے جن کے لئے یہ اُولڈ ایج ہوم بنائے جا رہے ہیں ۔
وادی کشمیر کا جہاں تک تعلق ہے ،یہاں کے عام لوگوں کیلئے یہ ایک نئی بات ہے کیونکہ آج تک انہوں نے اسطرح کے حالات نہیں دیکھے ہیں کہ عمر رسیدہ اشخاص کو گھروں سے نکال باہر کر کے اُنہیں سرکاری رحم وکرم پر چھوڑ ا جائے۔
بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وادی کے لوگ بھی اب تیز تر ترقی کی اور جا رہے ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں ایسے جوان مرد وخواتین ملک اور بیرون ملک کام کرنے کیلئے جاتے ہیں مگر گھروں میں اُن کے بزرگ والدین در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر نوکروں کے محتاج بن جاتے ہیں ۔
گذشتہ برس لال بازار علاقے میں ایک بزرگ خاتون کو اپنے ہی غیر ریاستی نوکرنے قتل کر کے اُس کے سونے کے زیوارات چرا لئے جو بعد میں گرفتار ہو گیا ۔
صورہ علاقے میں ایک انجینئرکی بزرگ والدہ گھر میں اکیلی رہتی تھی اور ہمسایوں کو لگ بھگ ایک ہفتے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کمرے میں ہی انتقال کر گئی تھیں ۔
غرض وادی میں بھی اب ان اُولڈ ایج ہومز کی ضرورت محسوس ہونے لگی اورشاید سرکار نے بھی ان ہی حالات کو مد نظر رکھ کر اس طرح کے اقدامات اُٹھانا شروع کردیا ۔ اب وہ پرانے ایام بھی نہیں رہے جب ایک اولاد اپنے بزرگ یا عمر رسیدہ والدین کی اُسی طرح دیکھ بال یا پرورش کرتا تھا جس طرح کسی زمانے میں اس کے والدین اس کی پرورش کرتے تھے۔
اب لوگ صرف دولت کمانے کے چکر میں دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں اور کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہے کہ آنے والا کل اُن کا بھی ہو گا ،انہیں بھی کسی کے سہارے کی ضرورت پڑے گی ۔
بہرحال سماج اس حوالے سے کافی بے حس نظر آرہا ہے اور جوان بچے اپنے والدین کا حق پوری طرح ادا نہیں کر پاتے ہیں ۔
دولت کمانا اچھی بات ،رتبہ اور مقام ومنزل حاصل کرنا اپنی جگہ لیکن اس دنیا کو چھوڑ کر اس حوالے سے باز پرس ہو گی کہ آپ نے اپنے بزرگ والدین کےساتھ احسان کیا تھا کہ نہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ کل کی تاریخ میں ہم بھی بوڑھے ہونگے۔