اب کی بار یک جٹ کیوں؟

اب کی بار یک جٹ کیوں؟

وادی میں جہاں موسم نے کروٹ بدلی، وہیں سیاسی سطح پر بھی کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔

گذشتہ ایک ہفتے سے جاری انہدامی کا رروائیوں سے جس طرح کی صورتحال سامنے آئی ہے، اُس کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو کر بات کرنے لگی ہیں ۔

این سی اور پی ڈی پی کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو مرکزی حکومت اور ایل جی انتظامیہ کے پہلے سے اپوزیشن میں تھے لیکن اب پی سی اور اپنی پارٹی کے لیڈران بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اس مہم کی بدولت عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں ۔سجاد غنی لون جنہیں وزیر اعظم کا خاص دوست مانا جاتا ہے ،نے پریس کانفرنس میں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ میر ا یعنی سجاد غنی لون کا وزیر اعظم کون ہے ؟

اسی طرح اپنی پارٹی سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے جموں میں ایک پریس کانفرنس کے دورا ن کہا ہے کہ زمین لوگوں کی ہوتی ہے، اس میں لوگ ہی رہ سکتے ہیں اورہم اگر لوگوں کو بے گھر کرتے ہوئے اُن سے چند مرلے زمین حاصل کرتے ہیں ،تو وہ کس کیلئے ہے، یعنی سب لوگ یک ہو کر مرکزی سرکار اور ایل جی انتظامیہ کےخلاف کھڑے ہو گئے ۔

جمہوری نظام کی سب سے بڑی خاصیت یہی ہے کہ یہاں لوگوں کو بات کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور اس نظا م میں قانون سب کیلئے برابر ہوتا ہے ۔

جہاں تک سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا تعلق ہے اُس میں امیر زیادہ ملوث ہیں، بنسبت آپ صرف غریب لوگوں کو ہی اپنی طاقت اور پاﺅر دکھائیں گے ۔

بہرحال جہاں تک انہدامی کارروائی کا تعلق ہے ۔ا س میں سرمایہ داروں کو بہرحال نشانہ بنایا گیا اور اُن سے وہ زمین واپس لی گئی جو انہوں نے ہڑپ کی تھی ۔

سوال یہ نہیں ہے کہ اب کی بار یہاں کی جملہ سیاسی جماعتیں یک جٹ ہو گی ہے بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ دوسرے معاملات پر وہ ایک کیوں نہیں ہوتے ہیں؟

اصل میں وہ سب سیاستدان یا سرمایہ دار اُن کے رشتہ دار اور قرابت دار اس مہم میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔

لہٰذا انہیں اس بار یک زبان ہو کر بات کرنے کی فرصت مل گئی ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ انہوں نے ہی کشمیری عوام کو غلط کرنے اور غلط طریقوں سے جینے اور زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے ۔

یہاں کے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ سیاستدان بن کر عوام کی ترجمانی کریں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.