مسلسل جدوجہد۔۔۔

مسلسل جدوجہد۔۔۔


شوکت ساحل

آئے دن خود کشی سے متعلق خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی نوجوان مایوسی کے عالم میں موت کو گلے لگاتا ہے، توکبھی کوئی طالب علم امتحان میں ناکام ہونے پر اپنی زندگی کو ختم کرڈالتا ہے۔۔۔ کبھی کوئی شخص سماج میں پھیل رہی بدنامی کے غم میں۔۔۔ یا بدنامی پھیل جانے کے خدشے کے پیش نظر۔۔۔ جام اجل نوش کرلیتا ہے۔

تو کبھی کوئی شخص اپنے بچوں کو بھوک، غریبی اور چھوٹی چھوٹی بنیادی ضرورتوں کے لیے ترستے دیکھ کر اور خود کو اس مسئلہ کو سلجھا پانے میں بے بس اور مجبور پاکر گھبرا اٹھتا ہے۔

یہاں تک کہ وہ پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنے اہلِ خانہ کو ختم کرکے خود بھی ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہے۔اس طرح کے واقعات میں اگرچہ خود کشی کے مختلف اسباب نظر آتے ہیں لیکن اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ایک بات سب میں مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ہے مشکل اور غیر متوقع صورت حال سے سمجھوتہ نہ کرپانے کی نفسیاتی کمزوری۔

یہی نفسیاتی کمزوری مایوسی کو جنم دیتی ہے اور مایوسی اپنے عروج پر پہنچ کر انسان کو خود کشی کے لیے مجبور کرنے لگتی ہے۔

آج بھی ایک خبر سامنے سے گزری کہ جنوبی کشمیر کے اننت ناگ میں ایک بیس سالہ نوجوان نے پھانسی لگا کر مبینہ طور پر خود کشی کی ۔

سوال یہ ہے کہ کیا مرنے کے بعد حقیقت میں ساری تکلیفوں سے نجات مل جاتی ہے؟ اور کیا انسان موت کے بعد واقعی معدوم ہوجاتا ہے؟۔اس کا پہلا اور بنیادی سبب تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اخروی زندگی پر اعتماد نہیں ہے۔

بظاہر مذہبی اور دھارمک نظر آنے والے اکثر لوگ بھی درحقیقت مادہ پرست ہی ہوتے ہیں اور زبان سے پرلوک (آخرت) اور سورگ اور نرک (جنت و جہنم) کو ماننے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسی موجودہ زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسی میں اپنی ساری خواہشات پوری کرلینا چاہتے ہیں۔

پھر جب انہیں کامیابی نہیں ملتی تو ان ہی میں سے کچھ لوگ انتہائی مایوسی کے عالم میں خود کشی کرلیتے ہیں۔زندگی کا دوسرا نام مسلسل جدوجہد ہے ۔مسلسل جدوجہد سے ہی زندگی کی ناکامیا بی کو کامیابی میں بدلا جاسکتا ہے ۔

تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلسل جدوجہد کیساتھ ساتھ مصمم ارادہ کرنا لینا ناگزیر ہے جبکہ ثابت قدم رہنا بھی لازمی ہے ۔

مشکل حالات کے سامنے بے بس ہو کر خود سپردگی کرنا اور نفسیاتی دباﺅ میں آکر موت کو گلے لگانا ،اسلام میں ممنوع ہے ۔کیوں کہ زندگی سے بہتر کوئی اور انمول تحفہ نہیں ہے ۔

مشکل حالات ،تنگ دستی اور مسائل سے نمٹنے کے لئے منصوبہ سازی ضروری ہے ۔اگر سنگین نوعیت کے حالات سے نمٹنے کے لئے جامعہ منصوبہ بندی کی جائے ،تو خود کشی کی نوبت نہیں آئے گی ۔

بقول شاعر (اس کی کشیدگی کا سبب کچھ بھی ہو مگر ۔۔۔مجھ کو گماں نہ تھا کہ یہ نوبت بھی آئے گی )۔

ایسے میں ہمیں حالات سے نمٹنے کا سلیقہ سیکھ لینا ہوگا ،ویسے گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیریوں نے سنگین سے سنگین نوعیت کے حالات کا مقابلہ کیا ،لہٰذا سوچ کو مثبت رکھنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.