ضرورت اور خواہش ۔۔

ضرورت اور خواہش ۔۔


شوکت ساحل

ضروریات اور خواہشات دو الگ الگ موضوعات ہیں ۔ضرورت کی اصطلاح سے ہماری مراد وہ ضروریات ہیں جو انسان کو صحت مند زندگی گزارنے کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔

وہ ذاتی ، نفسیاتی ، ثقافتی ، معاشرتی وغیرہ ہیں ،جو حیاتیات کے زندہ رہنے کے لئے اہم ہیں۔خواہش کی اصطلاح یہ ہے کہ ہماری خواہشات ہیں ،جو کسی ایسی چیز سے مراد ہے جو رکھنا اچھا ہے ، لیکن بقا کے لئے ضروری نہیں ہے۔

 

دانشمندی کے ساتھ پیسہ خرچ کرنے اور بچانے کے مقصد کے لئے ہر فرد کو ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق معلوم ہونا چاہئے۔

دانشور حلقوں کا ماننا ہے کہ ہمارے اکثر دکھوں،پریشانیوں اور شکایتوں کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کی نظروں میں اچھا بننا یا سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔

یہ خواہش خصوصاً اس وقت بری نہیں، جب ہم اپنی اخلاقی خوبیوں، مثلاً دوسروں کا حال احوال دریافت کرکے، دوسروں کی مدد کرکے اور ان کی مشکلات میں معاونت کرکے، ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا چاہیں۔

تاہم یہ خواہش اس وقت ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے، جب ہم اپنی دولت، اپنے مرتبہ اور اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے، یا اپنی کار اور کوٹھی سے دوسروں کو مرعوب کرنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔

اسی چیز سے دکھاوے اور نمود و نمایش کا مرض پیدا ہوتا ہے، جوآج ہمارے معاشرے میں عام ہے۔اس ضمن میں مثال پیش کی جاتی ہے کہ ایک متوسط اور نچلے متوسّط طبقے کا فرد بھی جب اپنی بیٹی ،بیٹے یا بھائی ۔

بہن کی شادی کرتا ہے، تو استطاعت نہ ہونے کے باوجود وہ ادھر ادھر سے قرض لے کر، یا سامان بیچ کر، محض اس لیے تین چار سو مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کرتاہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عزیز و رشتہ دار کیا کہیں گے؟ کچھ یہی معاملہ اعلیٰ اور اعلیٰ متوسط طبقے کا ہے جو شادی بیاہ کی تقریبات میں محض دکھاوے کے لیے کئی کئی پکوان دستر خوان پر رکھتے ہیں۔

اسی طرح بارات اور ولیمے کے علاوہ مہندی وغیرہ کی غیر ضروری رسومات پہ روپے پیسے کو پانی کی طرح بہادیا جاتاہے۔

یہ فضول خرچی محض اس لیے کی جاتی ہے کہ سماج میں اپنی ناک اونچی ہو۔ عزیزو رشتہ دار کہیں کہ واہ کیا دعوت تھی ۔ان ساری پریشانیوں کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم دکھاوے اور نام و نمود کی فرسودہ ، تکلیف دہ سماجی روایات کی ڈور سے بندھ گئے ہیں اور بعض صورتوں میںا ن سے متفق نہ ہونے کے باوجود روایات کی ان زنجیروں کو توڑنے کی اپنے اندر ہمت نہیں پاتے کہ ’دنیا کیا کہے گی؟‘۔ہم تو اتنا ہی کہیں گے کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ۔

آپ بھی فرسودہ روایات کو ختم کرنے کے لئے اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.