
شوکت ساحل
ہم یہ بات پہلے بھی اسی کالم میں کہہ چکے ہیں اور آج دوبارہ دہرائے ہیں کہ زندگی میں ہر قدم، ہر موڑ اور ہر لمحہ حادثات کے امکانات ہوتے ہیں۔
چونکہ حادثات کی نوعیت اور وقت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ،لہٰذا کسی حادثہ کی صورت میں فوری طور پر صحیح اور مکمل علاج کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

تاہم کسی حادثہ کے فوراً بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے بغیر اگر عمومی نوعیت کی آسان اور سادہ تدابیر اختیار کی جائیں تو بہت سی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
چوٹ لگنا، جل جانا،آگ لگنا، کرنٹ لگنا، سانپ یا کتے کا کاٹنا اور دم گھٹنا وغیرہ جیسے حادثات گھروں میں ہوتے رہتے ہیں۔
ان حادثات کی صورت میں کسی بھی فرد ہنگامی نوعیت کے حالات سے نمٹنے کے لئے خودکو ذہنی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔
وادی کشمیر خاص طور پر گرمائی صدر مقام سرینگر میں حالیہ ہفتوں کے دوران آگ کی بھیانک اور ہولناک وارداتیں رونما ہوئیں ۔
زیادہ آگ وارداتیں انسانی غفلت شعاری کے سبب رونما ہوئیں جبکہ انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہوا ۔

سرینگر پولیس نے بڑھتی ہوئی آگ واردات کا سنجیدہ نوٹس لیا اور شہریوں کو آگاہ کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ’سری نگر ضلع میں روزانہ آگ لگنے کے کئی واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ آگ سے حفاظت کے بنیادی آلات کو ہاتھ میں رکھیں اور صرف مستند گرمی کے آلات استعمال کریں۔
جعلی اور نقلی سامان یا آلات فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف قانون کے مطابق قانونی کارروائی کی جائے گی۔
‘ ایکبیان جو ٹویٹر ہینڈل پر جاری ہوا میں کہا گیا ’ہماری ٹیموں نے(ڈپٹی ایس پیز اور ایس ایچ اوز ) کی قیادت میں شہری کے علاقے میں ”ہیٹنگ ایپلائینسز“ یعنی( گرمی دینے والے آلات) فروخت کرنے والی دکانوں کی جانچ شروع کر دی ہے۔

غیر معیاری، نقلی یا جعلی پروڈکٹ (مصنوعات )ملنے پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ شہری فون نمبر (9596770502 ) پر بھی اطلاع دے سکتے ہیں، اگر انہیں ایسے آلات نظر آتے ہیں۔‘پولیس کی یہ سنجیدگی قابل سراہنا ہے۔
تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ جائز کاروبار کرنا گناہ نہیں ! اور اس حوالے سے قوانین وضوابط بھی وضع کردہ ہیں ۔ویکی پیڈیا کے مطابق انڈین اسٹینڈاڈ انسٹی ٹیوشن ( آئی ایس آئی نشان) 1955سے بھارت میں صنعتی مصنوعات کے لیے معیارات کی تعمیل کا نشان ہے۔
یہ نشان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کونسا پروڈکٹ ہندوستان کے قومی معیار کے ادارے بیورو آف انڈین اسٹینڈاڈز (بی ایس آئی) کے تیار کردہ ہندوستانی معیار (آئی ایس) کے مطابق ہے۔وضع کردہ قانون کی شق ایک کے تحت( آئی ایس آئی نشان) اب تک برصغیر میں سب سے زیادہ تسلیم شدہ مستند نشان ہے۔ آئی ایس آئی انڈین اسٹینڈاڈز انسٹی ٹیوشن کی ایک ابتداءہے، قومی معیار کے ادارے کا نام یکم جنوری1987 تک تھا، جب اس کا نام بدل کر بیورو آف انڈین اسٹینڈاز رکھا گیا۔

آئی ایس آئی نشان ہندوستان میں فروخت ہونے والی 90مصنوعات کے لیے لازمی ہے، جیسے بہت سے بجلی کے آلات، سوئچ، الیکٹرک موٹرز، وائرنگ کیبلز یعنی بجلی کی تاریں، ہیٹر، کچن کے آلات وغیرہ، اور دیگر مصنوعات جیسے پورٹ لینڈ سیمنٹ، ایل پی جی والو ، ایل پی جی سلنڈر، آٹوموٹو ٹائر وغیرہ۔ زیادہ تر دیگر مصنوعات کے معاملے میں، آئی ایس آئی کے نشانات اختیاری ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں جو کار خانے یہ آلات یا مصنوعات تیار کرتے ہیں ،کیا وہ اس وضع کردہ قانون پر عمل کرتے ہیں ،کیا اُنکے تیار کردہ آلات ہندوستان کے قومی معیار کے ادارے بیورو آف انڈین اسٹینڈاڈز پر کھرے اترتے ہیں یا نہیں؟۔
یہ کون چیک کریں گا ؟ایک دکان جو پہلے ہی اس وقت معاشی بدحالی سے دوچار ہے ،کو گھیرنایا تنگ وطلب کرنا یا اُس کے جائز کاروبار کو غیر قانونی ٹھہرانا ،جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔
بازاروں میں چینی آلات بھی ہیں ،کیا یہ آلات حکومت ِ ہند کی منظوری کے تحت ہندوستانی بازاروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چیز خریدناصارف کی منشا پر ہے ،وہ سستی اور مہنگی چیز خرید نے کا حق حاصل رکھتا ہے ،لیکن کسی بھی صارف کو چیزیں خریدنے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور ناہی دکاندار کو جائز کاروبار کرنے کے لئے کونسی چیز فروخت کرنی چاہیے یا نہیں مجبور کیا جاسکتا ہے ۔
ان حالات میں کارروائی نچلی سطح پر نہیں بلکہ اوپری سطح پر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیا آلات سمگلنگ کرکے بازاروں میں اتارے جاتے ہیں ،اگر سمگلنگ کا یہ غیر قانونی کاروبار ہورہا ہے ،تو اس کو روکنے کے لئے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





