خاموش وبا ۔۔۔۔۔۔

خاموش وبا ۔۔۔۔۔۔


شوکت ساحل
عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ۔19) نے برسوں پہلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔چین کے شہر وہان سے نمودار ہوئے صدی کے اس وائرس نے پوری دنیا کے اقتصادی اور ہر طرح کے تعلق کا پہیہ جام کردیا ۔زندگی کی رفتار تھم گئی اور وولڈ ہیلتھ آر گنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دنیا کے لئے الرٹ جاری کیا ۔

اس وبا کی روکتھام کے لئے سماجی دوری کو لازمی قرار دیا گیا اور یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا جبکہ اثرات اب بھی برقرار ہیں ۔

صدی کی اس وبا پر دنیا بھر کے طبی ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور حل تلاش کیا،لیکن دنیا کو ایک خاموش وبا کا بھی سامنا ہے،جس پر بولا اور لکھا جاتا ہے اور اس کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے اور روکنے کے لئے حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں ۔منشیات کی بڑھتی وبا پر تقاریب ،سمینار اور سمپوزیم کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حرکت میں آکر اس وبا کی روکتھام کے لئے اپنا رول ادا کررہے ہیں ۔

منشیات سمگلروں اور غیر قانونی کاروبار کرنے والے افراد کو سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیل دیا جاتا ہے ،لیکن پھر بھی یہ ناسو ر معاشرے کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے ۔

ایک عظیم شخصیت نے حالیہ دنوں ایک ٹویٹ کی ،جس میں انہوں نے اپنے اسکولی دِنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھا ’ اسکول میں ،میں نے ایک دن انگریزی مضمون کے استاد شیام لعل سے ” بوٹلیگر“(Bootlegger) کے معنیٰ پوچھے ،استاد نے جواب دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ’ ہمارے یہاں کشمیر میں ایسے بدمعاش اور ظالم لوگ نہیں ہیں۔

‘لیکن اب ہر دوسرے یا تیسرے دن ہمیں اپنے پیر واری¿ میں پولیس بوٹلیگروں(منشیات فروشوں ) کو گرفتار کرنے کے بارے میں اطلاع ملتی رہتی ہے۔

اس حساس نوعیت کے معاملے کا اندازہ اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری وادی میں منشیات کی وبا نے اپنی جڑیں کس حد تک مضبوط کی ہیں ۔اس وبا کے نشانے پر قوم کا مستقبل یعنی نوجوان نسل ہے ۔

نوجوان نسل کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پراپنا رول ادا کرنا ہوگا،والدین ،اساتذہ ،ذی حس طبقے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس وبا کی رفتار کو روکنے کے لئے کہیں سے پہل تو کرنی ہوگی ،یہ پہل گھر سے یا دفتر سے بھی ہوسکتی ہے ۔

اچھے کاموں کے لئے ہر وقت آپ کو تنقید کا سامنا رہتا ہے اور سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں ۔مثلاً اگر آپ نے سما جی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے کوئی تقریب کے لئے پہل کی تو آپ کو ایجنٹ سے لیکر پیسہ کا پجاری کے القابات سے نوازا جاتا ہے ۔

اگر ہم اِ ن القابات سے ڈر نے لگے یا خوف کے مارے چپ رہے تو قوم ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔کہیں سے اس وبا کے خاتمے اور مکمل قلع قمع کرنے کے لئے پہل تو کرنی ہوگی،اگر پہل ہی نہ کی جائے اور سارا بوجھ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر چھوڑا جائے ،تو ہم اس ناسور کو سماج سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔

لہٰذاضروری ہے کہ چھوٹی مچھلیوں کو پکڑ نے سے بہتر ہے کہ اُن مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالا جائے ،جنہوں نے غیر قانونی کاروبار کرکے اپنے لئے شیش محل اور آلیشان کوٹھیاں بنائی ہیں ۔ہر ایک کو اس وبا کے خاتمے کے لئے اپنی سوچ بدلنے ہوگی ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.