کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے کسان کا اہم رول ہوتا ہے، جو اپنی محنت ،لگن اور خون پسینے سے کھیتوں سے سونا اُگاتا ہے ۔
اسطرح ملک کے عوام کےساتھ ساتھ دیگر ہمسایہ ممالک کے لوگوں کا پیٹ بھر دیتا ہے، شرط یہ ہے کہ کسان کو قسمت ساتھ دے اور موسم بہتر رہے اور وقت پر بارشیں ہوں ۔
وادی کشمیر میں جہاں تک دھان اور مکئی کی فصل کا تعلق ہے، امسال اس میں کافی زیادہ بہتری دیکھنے کو ملی کیونکہ موسمی حالات بہتر دیکھنے کو ملے ۔
وادی کشمیر کے لوگوں کا ایک اچھا خاصا طبقہ زعفران کی کھیتی پر انحصار کرتا ہے، اگر یہ فصل اچھی اور زیادہ حاصل ہوجائے تو اقتصادی طور لوگ مضبوط ہونگے ،رواں برس زعفران کی پیداوار میں لگ بھگ 30فیصد اضافہ ہوا ہے جس کو ماہرین انتہائی حوصلہ افزاءقرار دہے رہے ہیں کیونکہ اس صنعت سے نہ صرف وادی کے کاشتکاروں اور زمینداروں کوفائدہ ملے گا بلکہ اس صنعت سے جڑے دیگر کاروباری لوگوں کا دکانداروں اور زعفران کا کاروبار کرنے والے تاجروں کو بھی فوائدے ملیں گے ۔
جہاں تک وادی کے زعفران کا تعلق ہے یہ بہترین قسم کا مصالہ تصور کیا جاتا ہے۔ پوراملک اس زعفران کو نہ صرف کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ملک کی ہندو برادری اس زعفران کو پوجا پاٹ میں بھی بہت زیادہ استعمال کرتی ہے ۔
اسطرح اس زعفران کی خرید وفروخت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔اب کی بار جوزعفران کی پیداوار میں 30فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے یہ ایک بہت بڑی قدرت کی مہربانی ،یہاں کے زمینداروں پر تصور کی جا رہی ہے ۔
مگر ایک بات جو اکثر سامنے آتی ہے کہ اس زعفران میں چند خود غرض عناصر ملاوٹ کرتے ہیں اور کشمیر ی زعفرا ن کے نام پر کوڑا کرکٹ بھیجتے ہیں جس پر نظر گذر رکھنے کی بے حدضرورت ہے ۔
جہاں سرکار کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس حوالے سے ضروری اقدامات اُٹھائے، وہیں یہاں کے اُن لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داریو ں کا بھرپور احساس کرنا چاہیے کہ یہ صنعت انکے لئے روز گار کی سبیل ہے، جس کو خراب نہیں کرنا چاہیے اور اُن زمینداروں ،تاجروں اور غلط عناصر پر نظر رکھنی چاہیے جو یہاں کے کسانوں کے پاﺅں پر کلہاڑی مارتے ہیں ۔





