جمعرات, نومبر ۱۳, ۲۰۲۵
8.9 C
Srinagar

زرعی زمین کا تحفظ۔۔۔

جموں وکشمیر کے گورنر منوج سہنا نے زراعت کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے سمارٹ ٹیکنالوجی کوناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو سائنسی ترقی سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے ۔شیر کشمیر یورنیورسٹی آف ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اہتمام سے منعقدہ ایک قومی سیمنار میں ایل جی نے ترقی پسند کسانوں کو زراعت کے شعبے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی ہے ۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں ایک کسان کا بہت بڑا رول ہوتا ہے وہی کسان اپنی محنت اور لگن سے تیار کررہی فصل ملک کے گھر گھر تک فراہم کرتا ہے اور اسطرح کسان کو ”ان داتا “ کا نام دیا گیا ہے ۔

انسان زندگی کیلئے روٹی کپڑا اور مکان سب سے اہم بنیادی ضروریات تصور کئے جاتے ہیں لیکن سب سے پہلے کسان ہی پہلی ضرورت پوری کر دیتا ہے یعنی کسان کی محنت اور خون پسینے کی بدولت ہی انسان کو روٹی فراہم ہوتی ہے ۔

اعداد وشمار کے مطابق ملک میں گذشتہ چند برسوں کے دوران درجنوں کسانوں نے اس بنا ءپر اپنی زندگی کا کام تمام کر دیا ہے کیونکہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے پھنس چکے تھے کیونکہ اُن کی فصلوں کا نقصان ہو رہا تھا ،کبھی موسمی بدحالی اور کبھی بیچ اور کھادوں کی غیر معیاری کی وجہ سے اُن کی سال بھر کی کمائی پل بھر میں ضائع ہوجاتی تھی ،اب چونکہ سرکار نے کسانوں کی سہولیت اور ترقی کیلئے مختلف اسکیمیں متعارف کی ہیں لیکن اب کوئی بھی کسان دل کی رضائی سے محنت کرنے کیلئے تیار نہیں ہو رہا ہے اگر ہم اپنی وادی کی بات کریں تو یہاں کھیت کھلیانوں اور باغوں میں صرف باہر کے مزدور ہی کام کرتے نظر آرہے ہیں ۔

باریک بینی سے دیکھا جائے تو کوئی بھی کسان فائدے کے بجائے نقصان سے دوچار ہو رہا ہے ۔سب سے اہم مسئلہ جو وادی میں درپیش ہے کہ یہاں زراعی زمین کو بنجر قدیم دکھا کر اس پر بڑے بڑے تعمیری ڈھانچے کھڑے کئے جا رہے ہیں ۔

شہر سرینگر کا راجباغ علاقہ جو چند دہائی قبل تازی سبزیوں کا باغ مانا جاتاتھا، یہاں اس قدر اونچے اونچے aہوٹل اور عالی شان بنگلے ،شاپنگ کمپلیکس تعمیر ہوئے کہ اب ایک فٹ زمین بھی کہیں دستیاب نہیں ہے۔ اسی طرح شہر کے دوسرے علاقوں اور قصبہ جات کا بھی یہی حال ہے ،وہاں زرعی زمین کو ختم کیا جا رہا ہے ۔جب زمین ہی نہیں رہے گی تو کسان خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔

جدید ٹیکنالوجی اپنانا اچھی بات ہے لیکن پہلے زمین بچانے کیلئے سرکار اور انتظامیہ کو کارگر اقدامات اُٹھانے چاہیے ۔

زمین فروخت کرنے والے دلالوں ،پٹواریوں اور محکمہ مال کے دیگر افسران کی لگام کسنی چاہیے جو اس زرعی زمین کو بنجر بنانے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں ،تب جا کر یہ ممکن ہے کہ زرعی زمین محفوظ ہو سکے اور پھر کھیتی باڑی بھی ممکن ہے، زمین کا خاتمہ ہو جائے گا اور پھر نہ رہے گی بھانس اور نہ بجے گی بانسری۔

Popular Categories

spot_imgspot_img