وادی کشمیر میں رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اشیائ خوردنی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے اور لوگو ں کو جان بوجھ کر پریشان کیا جا رہا ہے۔
اسکے برعکس باقی مذاہب کے لوگ اپنے مقدس ایام اور بڑے دنوں پر مختلف چیزوں کے قیمتوں میں کمی کرتے ہیں۔
عوامی حلقوں کے مطابق وادی میں گوشت نایاب ہو رہا ہے اگر کسی کسی جگہ گوشت دستیاب ہے تو وہ بھی 650روپے فی کلو فروخت کیا جا رہا ہے اور وہ بھی سی گریڈ یعنی تیسرے درجے کا گوشت ہوتا ہے یہی حال مرغوں اور پنیر وغیر ہ کا بھی ہے۔
اگر ماہرین امراض کا مانا جائے تو گوشت انسانی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے اگر کھانا ضروری ہے وہ بھی کم مقدار میں کھانا چاہیے۔
جہاں تک دیگر چیزوں کا تعلق ہے وہ بھی من چاہے داموں بغیر کسی رکاوٹ کے فروخت کیا جا رہا ہے۔
محکمہ امور صارفین وعوامی تقسیم کاری کے انفراسمنٹ ٹیم نے اگر چہ مختلف علاقوں میں چھاپہ ماری کر کے چند قصابوں اور دکانداروں کےخلاف کارروائی کی اور انہیں جرمانہ بھی کیا لیکن پھر بھی گراں بازاری کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
پہلے ایام میں لوگ شہر ودیہات میں مال مویشی اور مرغے پال رہے تھے لیکن دھیرے دھیرے یہ روایات ختم ہونے لگیں اور لوگ باہر سے آرہے گوشت ،مرغے ،پھل اور دیگر چیزوں پر انحصار کرتے ہیں جبکہ زرعی زمین کا دھیرے دھیرے خاتمہ کیا جا رہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔
لوگوں کو چاہیے کہ وہ خود سبزی ،پھل او ر گوشت کی پیداوار بڑھانے میں کوشش کریں تاکہ مہنگائی بھی کم ہو جائے اور خرچات بھی کم ہوسکیں۔مسلم برادری کو رمضان المبارک کے مقدس ایام کو مدنظر رکھ کر اشیاء خوردنی پر کم نفع کمانا چاہیے تاکہ انسانی خدمت ہو سکے اور لوگ بددعا سے بچ جائیں۔
سرکار کی بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ایسے گراں فروشوں کےخلاف سخت کارروائی کر کے قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھا ئیں تاکہ لوگوں کو مشکلات سے نجات مل سکے۔