موسم بہار کی آمد ایک طرف وادی کے عوا م کیلئے ایک خوشگوار ماحول پیدا کر دیتا ہے اور سیاح مختلف جگہوں سے آکر وادی وارد ہوتے ہیں جن کی بدولت صحت افزاءمقامات ،بازاروں اور باغوں میں رونق آجاتی ہے، وہیں دوسری جانب سڑکوں کے کنارے ،چوراہوں اور ان صحت افزاءمقامات پر گداگروں کی قطاریں نظر آرہی ہے ،جو اس بات کا واضع اشارہ دیتے ہیں کہ یہاں غربت وافلاس ہے جبکہ حقیقی معنوں میں ان گداگروں میں زیادہ تر لوگ باہر کے ہوتے ہیں ۔
لال بتی جوں ہی کسی چوراہے پر آن ہوتی ہے تو گاڑیوں کے ارد گرد گداگروں کی فوج نظر آرہی ہے۔ یہ گداگر ڈرائیور حضرات کو گرین سگنل آن ہونے کے باوجود بھی ان چوراہوں پر آگے بڑھنے نہیںدیتے ہیں ۔
اکثر زیارت گاہوں اور صحت افزاءمقامات پر یہ گداگر باہر سے آرہے سیاحوں کو کچھ نہ کچھ دینے کیلئے مجبور کردیتے ہیں اور وہاں پر تعینات سرکاری ملازم اور پولیس اہلکار خاموش تماشاہی بن کر یہ سب کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔
اس عمل سے نہ صرف وادی کی بدنامی ہو رہی ہے بلکہ یہ تاثر بھی سیاحوں میں پیدا ہو رہا ہے کہ اہل وادی میں زیادہ ترلوگ بھکاری ہیں اور مفت کی روٹیاں کھانے کے عادی ہو گئے ہیں جبکہ اہل وادی محنت کش ،عوام دوست اور خود دار ہیں، جو اپنی روٹی کا آدھا حصہ دوسروں کو دینے پر یقین رکھتے ہیں ۔
گزشتہ روز باغ ِگلِ لالہ کھولتے وقت اس طرح کے کئی مناظر دیکھنے کو ملے کہ گداگر حضرات سیاح کے پیچھے پیچھے اُن کے کپڑے کھینچتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔بہرحال وادی جس مہمان نوازی ،شرافت ،سادگی اور انسانیت کیلئے جانی جاتی ہے اُس وادی کا تقدس بحال رکھنے کی پولیس اور دیگر انتظامیہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس طرح کے پیشہ ور گداگر وں کی بھیک مانگنے پر پابندی عائد کریں اور ایسے لوگوں کو پولیس تھانوں میں بند کریں جو راہ چلتے مسافروں ،سیاحوں اور ڈرائیوروں کو کچھ نہ کچھ دینے کیلئے مجبور کرتے ہیں ۔تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان گداگروں میں زیادہ لوگ آسودہ حا ل اور مالی طور صحت مند ہیں ۔