وادی میں جہاں امن وسلامتی کےساتھ ساتھ تیز تر تعمیراتی سرگرمیاں جاری ہیں، وہیں اس وادی میں پیڑ پودے لگانے کی مہم بھی شروع ہو چکی ہے۔
ہر ضلع ہیڈکواٹر پر محکمہ جنگلات کے علاوہ دیگر متعلقہ محکمے اس کام میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں ۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے جس سرزمین پر پیڑ پودے زیادہ ہوں گے وہیں پر بہتر ڈھنگ سے پانی کی فراہمی بھی ہو گی اور فصلوں کی برآمد بھی ،چونکہ مارچ اور اپریل مہینوں میں درخت لگانے کا موسم ہوتا ہے اور اسی لئے سرکار بھی اس سلسلے میں اپنی مہم کا آغاز کرتی ہے۔
یہاں یہ بات کہنا بے حد لازمی ہے کہ گزشتہ 3دہائیوں کے دوران وادی میں جنگلات اور دیگر درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی ،وُلر مانسبل اور دیگرآبی ذخائر کے ارد گرد درخت لاکھوں کی تعداد میں کاٹے گئے اور شہری علاقوں میں ویسے بھی جگہ نہیں ہوتی ہے کہ لوگ بہ آسانی درخت لگاسکیں، لیکن دیہات میں زمین دستیاب ہونے کے باوجود لوگ اس عمل سے دور ہیں۔
نئی نوجوان نسل اب اسکی جانب بہت کم توجہ دے رہی ہے ،نوجوان صرف دولت کمانے ،نام وشہرت کمانے کے چکر میں لگے ہیں لیکن درخت لگانے کی اُن میں دلچسپی نظر نہیں آرہی ہے ۔
گزشتہ روز ڈویژنل کمشنر پی کے پولی نے مغل باغ میں چنار کا درخت لگا کر یہاں کے لوگوں کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے ہر حال میں کھلی زمین میں پودے لگانے چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف انسانی زندگی کو برقرار رکھنے کا آکسیجن مل رہا ہے بلکہ لکڑی بھی دستیاب ہو رہی ہے ،ان درختوں کی بدولت جانوروں کی ایک بڑی تعداد کو غذا بھی دستیاب ہو رہا ہے ۔
سماج میں جس طرح پانی اور ہوا ضروری ہے ،اسی طرح ماحول کو صاف رکھنے کیلئے پیڑ پودوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ پانی اور ہوا بھی ان ہی پیڑ پودوں کی بدولت دستیاب ہو رہا ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے بھی نجات مل جاتی ہے جو کہ اس وقت پوری دنیا خاصکر جموں وکشمیر میں ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔
لہٰذا اسکولوں ،کالجوں اور دیگر تربیت گاہوں میں بچوں کو تعلیم وتربیت دینے کےساتھ ساتھ پیڑ پودے لگانے کی ترغیب دینی چاہیے ،تاکہ یہ وادی پھر سے خوبصورت جنت نظر آسکے جو فی الحا ل بھیڑ بھاڑ والے شہروں سے بھی زیادہ آلودہ نظر آرہی ہے ۔