جموں وکشمیر میں ”سب کچھ ٹھیک ہے“ کا بیانیہ فرسودہ : لوک سبھا میں حسنین مسعودی کا خطاب

جموں وکشمیر میں ”سب کچھ ٹھیک ہے“ کا بیانیہ فرسودہ : لوک سبھا میں حسنین مسعودی کا خطاب

سری نگر،15 مارچ:جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران جموں وکشمیر کے عوام کو جمہوری حقوق سے محروم رکھنے، آئین کو تہس نہس کرکے خصوصی پوزیشن ختم کرنے، امن و قانون کی صورتحال کو بگاڑنے، حدبندی کمیشن کے ذریعے کشمیر کے لوگوں کو بے اختیار کرنے ،ملازمین کے تئیں حکومت کے رویہ اور عارضی ملازمین کی مستقلی کے علاوہ دیگر معاملات اُٹھائے۔

جموں و کشمیر کے بجٹ پر بولتے ہوئے حسنین مسعودی نے کہا کہ ”یہ مسلسل چوتھا بجٹ ہے جو جمو ں وکشمیر کی اسمبلی کے بجائے پارلیمنٹ میں پیش ہورہاہے۔اور یہ بذات خود ایک سوال ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی اتنی مدت سے کسی نمائندگی کے بغیر کیوں ہے؟وہاں اسمبلی کیوں نہیں ہے، جو اسمبلی خود فیصلہ کرتی کہ وہاں کے لوگوں کی ضروریات کیا ہیں،وہاں کے لوگوں کے توقعات کیا ہیں اور کتنے رقومات مختص ہونے چاہئیں۔

مسعودی نے کہا کہ ہم نے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے کہا کہ آپ کے اعتراضات میں دم ہے اور اسے ایک آئینی بنچ کے سپرد کردیا ۔ ہر ایک جمہوریت میں یہ اصول ہے کہ اگر کوئی معاملہ زیر سماعت ہے ، اس پر کسی بھی پیش رفت سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے لیکن یہاں اصولوں کو روندا جارہاہے اور سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے پہلے ہی اپنا فیصلے تھوپا جارہاہے۔

انہوں نے بتایا کہ آپ صرف جموں وکشمیر کے عوام سے ہی حقوق نہیں چھین رہے ہیں بلکہ آپ آئین کو روند رہے ہیں اور سپریم کورٹ کی توہین کررہے ہیں۔آپ ایسے قانون کے تحت جموں وکشمیر کی حدبندی کررہے ہیں جس کی جوازیت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس حدبندی کے ذریعے کشمیر کے لوگوں کو بے اختیار کیا جارہا ہے۔

مسعودی نے کہا کہ ”کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ حدبندی میں ایک خطے کا حصہ دوسرے خطے کی نشست کیساتھ ملایا جارہا ہے لیکن یہاں جنوبی کشمیر کے علاقوں کو پونچھ کیساتھ ملایا جارہا ہے۔
ایک نشست کی حدبندی کی تجویز ہے 2 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے اور وہیں دوسری نشست کی تجویز 51 ہزار کی آبادی پر مشتمل ہے۔مجھے اُمید ہے کہ اس کمیشن کی سربراہ خود اس بات کا جائزہ لیں گی کہ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل اُن کا کوئی فیصلہ لینا مناسب ہوگا۔“

حسنین مسعودی نے کہا کہ رول نمبر 205 کا تقاضا ہے کہ جس دن بجٹ پیش ہوگا اُس دن بجٹ پر بحث نہیں ہوگی بلکہ معزز ممبران کو یہ موقع دیا جائیگا کہ وہ بجٹ کا جائزہ لیں اور پھر بحث میں حصہ لیکر آپنی رائے دیں۔ لیکن آپ نے ایک قرارداد کے ذریعے رول205 کو معطل کردیا۔ 2بجے ممبران کو بجٹ کے کاغذات تھمائے گئے اور اس کیساتھ بحث شروع ہوئی ، کیا ایک جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ”5 اگست 2019 کے فیصلوں کو جواز بخشنے کیلئے جو تشہیر کی گئی اس میں کہا گیا کہ خصوصی پوزیشن سے ہی علیحدگی پسندی پنپتی ہے، اسی سے امن و قانون کی صورتحال خراب ہوتی ہے۔لیکن 5اگست2019کے بعد اعداد و شمار کچھ اور ہی سچائی سامنے لاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران قریب 500 کے انکاﺅنٹر ہوئے اور اس سال کے پہلے چند ماہ میں درجن بھر انکاﺅنٹر ہوئے۔500کے قریب عوام ہوئی اور ابھی بھی سینکڑوں لوگ جیلوں میں بند ہیں۔
اُن کے مطابق ہمارے نوجوان امبیدکر نگر ،آگرہ اور تہار کی جیلوں میں بند ہیں۔ کیا آپ اسی کو نارملسی کہتے ہیں؟ آپ جس فرضی نارملسی کی کہانیاں ملک اور باہری دنیا کو سنا ہے ہیں وہ جموں وکشمیر کی زمینی صورتحال سے میل نہیں کھاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اسی ہفتے 3سرپنچ مارے گئے۔ اور ہم سے کہا جارہا ہے کہ کولگام کے سرپنچ کو سرینگر میں کمرہ دیا گیا ہے وہ وہاں کیوں نہیں بیٹھا؟ کیا یہی نارملسی ہے کہ کولگام کے ایک پنچایتی نمائندے کو اپنے لوگوں سے دور سرینگر میں رہنا پڑے؟“

رکن پارلیمان نے پارلیمنٹ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”آپ دیکھئے کتنی اموات ہورہی ہیں، کتنے سیکورٹی فورسز مارے جارہے ہیں؟ ہلاکتیں جہاں بھی ہوں، سیکورٹی فورسز کا جوان مارا جائے یا کوئی اور نوجوان مرے،انسانی جان جہاں بھی تلف ہووہ دکھ کی بات ہے۔ لیکن آپ اس بات کا محاصبہ کیجئے کہ کیا ہلاکتوں کا سلسلہ تھم رہا ہے؟

انہوں نے بتایا کہ کیا آپ نے 5 اگست2019 کو جو دعوے کئے تھے وہ پورے ہورہے ہیں؟ آپ نے تو جموں و کشمیر کے عوام کو مزید اندھیروں کی طرف دھکیل دیاہے اور مزید پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے۔
مسعودی نے کہاکہ بڑے بڑے ایوانوں میں نارملسی کی جو باتیں ہورہی ہیں وہ حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔تعمیرو ترقی اور خوشحالی کے دعوے بھی زمینی سطح پر سراب نظر آرہے ہیں۔ جموں و کشمیر کیلئے جس بجٹ کا اعلان کیا گیا ہے اُس میں سے 73فیصد داخلہ محکمے کیلئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آج جموں و کشمیرمیں بے روزگار کی شرح ملک میں سب سے زیادہ 23فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

حکومت کا ملازمین کے تئیں رویہ ایک اور درد بھری داستان ہے۔ملازمین کو نوکریوں سے نکالا جارہا ہے۔ جموں وکشمیر سیمٹس کی فیکٹر ی کے ملازمین 2019 سے تنخواہیں سے محروم ہیں۔61000 کے قریب عارضی ملازمین سڑکوں پر بیٹھے ہیں، اُن کی مستقلی کا کوئی اہتمام نہیں کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ خوشحالی کے دعوے تو کئے جارہے ہیں لیکن آج بھی ہزاروں ملازمین کو کم ازکم اجرتوں سے محروم رکھا جارہا ہے۔مسعودی نے کہا کہ مرکزی حکومت کا ”سب کچھ ٹھیک ہے “ کا بیانیہ فرسودہ ہے۔

یو این آئی

Leave a Reply

Your email address will not be published.