بے قابورفتار کا قہر۔۔۔

بے قابورفتار کا قہر۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

گزشتہ روز دفتر سے دن کی روشنی میں ہی گھر جانے کا موقع ملا ۔یہ موقع ’ورک فرام ہوم‘ کی بنیاد پر ملا۔

آپ جانتے ہی ہیں کہ اخبارنویسی ایک ایسا پیشہ ہے ،جس کے ساتھ جڑے افراد دن کی روشنی میں دفتر میں داخل ہوتے ہیں اور رات کی تاریکی میں واپس نکلتے ہیں ۔

بہرکیف آج کے موضوع کو ہی زیر بحث بناتے ہیں ۔شام کی سیاہ چادر آہستہ آہستہ دن کے اُجالے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ۔

شہرسرینگر کے مختلف مقامات واقع نجی کوچنگ مراکز سے مستقبل پڑھائی سے متعلق لیکچر ز لینے کے بعد طلبا وطالبات گھروں کی طرف لوٹ رہی تھیں ۔کوئی ذاتی موٹر سائیکل تو کوئی سکوٹی اور کوئی پیدل سفر کرکے گھر کی طرف جارہا تھا ۔گھر واپسی کے دوران میرا سامنا بے قابو رفتار سے ہوا ۔

جی ہاں ! بے قابو رفتار ۔۔۔جس کا سامنا کبھی نہ کبھی آپ نے بھی کیا ہوگا ۔یہ ایک ایسی رفتار ہے ،جس کاانجام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے ۔

ایک نوجوان اتنی تیز رفتار سے موٹر سائیکل چلا رہا تھا ،مجھے ایسا احساس ہوا کہ کوئی جنگی طیارہ میرا کان چھو کر گزرا ہو ۔

جی ہاں ! جنگی طیارہ ۔۔۔۔جو کبھی کبھار ہی ہماری آنکھوں سے گزرتا ہے ،زیادہ تر اوقات اُسکی آواز ہی سننے کو ملتی ہے ۔۔۔بے تاب آنکھیں فلک کی طرف اٹھتی ہیں ،تاکہ اسکی جھلک دیکھ سکیں ۔

اس تجربے سے آپ بھی اپنی زندگی میں ضرور مستفید ہوئے ہوں گے ۔ایک کم عمر نوجوان موٹر سائیکل پر جارہا تھا اور پیچھے اُس نے دو دستوں کو بٹھا رکھا تھا ۔

دوست ہی ہوں گی ،کیوں کہ سڑک پرمستی بھائی بہن کیساتھ تو نہیں کی جاسکتی ہے۔کم عمرنوجوان نہ صرف بے قابو رفتار کیساتھ موٹر سائیکل چلا رہاتھا بلکہ ’زک ۔زیک ‘ کرتب بازی بھی کررہا تھا ۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ اس نوجوان موٹر سائیکل سوارنے ایک نہیں ،دو نہیں بلکہ تین گاڑیوں کی بائیں کی طرف سے’ اُوور ٹیک‘ کی۔یہ منظر دیکھ کر حیرانگی ہوئی ۔

ویسے یہ پہلا موقع نہیں تھا ،اس سے پہلے بھی میں ایسے ان گنت منظر دیکھ چکا ہوں ۔لیکن کل کے لمحات میرے لئے جھنجھوڑ دینے والے تھے ۔اوور ٹیکنگ کے دوران اس کم عمر موٹر سائیکل سوار ،جس نے اپنے پیچھے دو دوستوں کو بٹھا رکھا تھا ، کی ٹکر سے راہ چل رہے دو بزرگ معجزیاتی طور بچ گئے جبکہ ایک سکوٹی سوار بھی خود کومحفوظ رکھنے میں کامیاب ہوا ،کیوں کہ حادثہ ہونے ہی والا تھا ۔

اس حادثے کا انجام کیا ہوتا ،بتانے کی ضرورت نہیں ۔موٹر سائیکل سوار’ ون ویلنگ‘ کرکے آگے جاکر رک گیا ۔

دائیں اورنہ بائیں اس نوجوان نے بیچ سڑک ’زیرو کٹ ‘ کرکے واپسی کی راہ اختیار کی ۔بے قابو رفتار کا سامنا مجھے کم عمر نوجوان کی موٹر سائیکل چلانے کے دوران ہی نہیں ہوا بلکہ ایک طالبہ بھی کچھ ایسا ہی کرکے گھر کی طرف جارہی تھی ۔غلط اوورٹیکنگ کرکے تیز رفتاری کیساتھ موٹر سائیکل یا سکوٹی چلانا کتنا خطراناک اور جان لیواءثابت ہوسکتا ہے ،یہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔

دنیا بھر میں زیادہ سڑک حادثات انسانی غفلت کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں ۔گو کہ پولیس نے کرتب باز موٹر سائیکل سواروں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے ،تاہم اب اس دائرہ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے ۔

پولیس پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ کوچنگ مراکز کے باہر خصوصی دستے تعینات کریں اور چند روز تک حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایسے نوجوانوں کے خلاف کارروائی عمل میں لاکر والدین کو جوابدہ بنائیں ،جو کم عمری میں ہی نوجوانوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانے کی خود ساختہ لائسنس فراہم کرتے ہیں ۔پولیس پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کے لئے والدین کو بھی تعمیری رول ادا کرنا ہوگا ۔

اول اُنہیں بچوں کی ضد کے سامنے سرخم نہیں کرنا چاہیے ،کم عمری میں بچوں کو گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔اب وقت آگیا ہے کہ نجی کوچنگ مراکز میں بھی پندرہ منٹ ایک کونسلنگ سے بھرپور لیکچر دیا جائے ۔تاکہ بے قابو رفتار پر قابو پایا جاسکے ۔سوچ بدلنے سے ہی کامیابی حاصل ہوگی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.