تربیت کا ثمر۔۔۔

تربیت کا ثمر۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے ہی بڑے ہو کر ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔

جس طرح اگر کسی عمارت کی بنیاد مضبوط اور پائیدار ہو تو وہ ہر قسم کے تغیرات کو برداشت کرنے کے بعد اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔

بالکل اسی طرح اگر بچوں کی تربیت بھی بہترین خطوط پر کی جائے تو وہ مضبوط کردار کے مالک بنیں گے۔ پھر زمانے کے طاغوتی تغیرات ان کے اخلاق و ایمان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔

بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا دل و دماغ بالکل سادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ماہرین نے تربیت کی بہترین عمر بچپن کو ہی قرار دیا ہے۔

بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین، معلم اور معاشرہ پر ہوتی ہے۔والدین کا کردار بچوں کی تربیت میں سب سے پہلا، بنیادی اور اہم ترین عنصر ہے۔والدین ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں۔

بزرگوں کا فرمانا ہے کہ بچہ سات سال تک ماں باپ کا غلام ہوتا ہے۔ وہ وہی سیکھتا ہے جو اس کے والدین اسے سکھانا چاہتے ہیں۔

سات سے چودہ سال کی عمر میں ان کا مشیر بن جاتا ہے یعنی وہ ان سے سیکھتا بھی ہے اور وقتاً فوقتاً انہیں اپنی رائے بھی دیتا ہے۔ پھر چودہ سال کی عمر کے بعد تربیت کا ثمر سامنے آتا ہے کہ اچھی تربیت ہوئی ہے یا بری؟ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ والدین کس ڈھنگ پر بچوں کی تربیت کریں؟ تو اس کا جواب ہمیں اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’اپنے بچوں کو تین چیزیں سکھاﺅ۔ اللہ تعالی سے محبت، 2 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت،3 قرآن سے محبت،بچوں کے دلوں میں ان چیزوں کی محبت ڈالنے کا سب سے بہترین وقت ان کا بچپن ہی ہے۔

جب ان کے دلوں میں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی محبت ہو گئی تو وہ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی لازمی کوشش بھی کریں گے۔یہی محبت ہی انہیں دن بدن سنوارے گی اور وہ دنیا و آخرت میں کامیابیاں و کامرانیاں پائیں گے۔کئی بچوں کو والدین سے سوالات کرنے کی عادت ہوتی ہے۔

ان کی یہ عادت فضول گوئی سمجھ کر انہیں چپ نہ کروائیں بلکہ ممکنہ تسلی بخش جواب دیں۔اگر آپ اس وقت بہت مصروف ہیں تو وقتی طور پر معذرت کرلیں لیکن بعد میں ان کی طرف ضرور رجوع کریں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ سوالات کرنے والے بچے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا بچہ پڑھائی میں کند ذہن ہے تو پریشان مت ہوں۔یہ قانون فطرت ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں مختلف صلاحیتیں تقسیم کر رکھی ہیں۔

اگر کسی کو لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو دوسرے کو بولنے کی دی ہوگی۔اگر ایک بچہ پڑھنے میں کندذہن ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ پریکٹیکل میں تیز ہو۔ والدین کو ماہر نفسیات کی ذمہ داری بھی ادا کرنا ہو گی۔

ان کی نفسیات ورجحانات کو سمجھنا ہو گا پھر اس کے مطابق ان سے کام لینا ہوگا۔ کند ذہن بچوں کی صلاحیتیں بھی وقت کے ساتھ کھل سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.