ہفتہ, جولائی ۵, ۲۰۲۵
25.5 C
Srinagar

ٹاسک فورس کی ضرورت۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

حکومت نے کئی طرح کے چیلنجز سے نمٹنے ،عوامی مسائل ،مشکلات اور مصائب کا ازالہ کرنے کے لئے نہ صرف ادارے قائم کئے ہیں بلکہ ای۔شکایتی پورٹل اور مختلف نوعیت کی ٹیمیں بھی تشکیل دیں اور قوانین وضوابط بھی موجود ہیں۔اس کا بنیادی مقصد عوام کو ہر سطح پر راحت پہنچانا ہے ۔بازاروں میں قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے علیحدہ محکمہ اور ٹیم ،غیر قانی تعمیرات کے خلاف انفورسمنٹ ونگ اور بھی نہ جا نے کیا کیا ۔حکومت کی جانب سے قائم کئے ادارے زمینی سطح پر کتنے متحرک ہیں ،یہ الگ بحث ہے ۔

لیکن آج ہم جس موضوع پر بات کر نا چاہتے ہیں ،وہ انتہائی حساس اور توجہ طلب ہے ۔جی ہاں !”ملاوٹ “ ۔حلال میں حرام کی ملاوٹ ،خوراک میں ملاوٹ اور ایمانداری میں رشوت کی ملاوٹ ۔الغرض یہ کہ زندگی کے ہر ایک شعبہ اور ہر شئے میں آج کل ملاوٹ ہی پائی جارہی ہے ۔یہ ملاوٹ سماج کے لئے ناسور ہے ۔’ملاوٹ‘ کسی بھی اصل چیز میں اس جیسی کسی نقلی چیز کو اس لیے ملایا جائے تاکہ اصل کے برابر نقل چیز کا بھی فائدہ ہو۔ یہ کام آج کل تجارت پیشہ حضرات بھی کر رہے ہیں۔

اگر لوگ جانتے ہوں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی کوشش سے تاجروں کو منع نہ کریں تو یہ لوگ بھی ملاوٹ کے گناہ میں کسی حد تک شامل ہیں۔عیب چھپا کر مال فروخت کرنا، کم تولنا، کم ناپنا یہ ایسے امور ہیں، جن کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔

آج کا تاجر اگرچہ مسلمان ہے اور اسے ان چیزوں کی برائی کا علم بھی ہے، مگر وہ یہ سب کام کر رہا ہے۔ اسے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ ا±س کی ملاوٹ سے عوام کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔

تاجر حضرات نہ جانے لوگوں کو کیا کیا حرام اور حلال ملا کر کھلا رہے ہیں۔ بہت سے کیمیکل ایسے ہیں جن کو غذاﺅں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا تو اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ کون سے کیمیکل غذا یا دوسری قابل استعمال اشیاءمیں استعمال کرنے چاہیے اور وہ حلال بھی ہیں۔ حکومت اور ان کے احکام بھی ملاوٹ میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب حکام اپنے احکامات کو بازاروں اور منڈیوں پر لاگو نہیں کر پاتے تو یہ سب غلط کاری ہوتی ہے۔معاشرہ بہت سے افراد اور ان کے احوال کے مجموعے کا نام ہے۔

اگر لوگ جانتے ہوں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی کوشش سے تاجروں کو منع نہ کریں تو یہ لوگ بھی ملاوٹ میں کسی حد تک شامل ہیں۔ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے۔ اناج میں پانی، مٹی، کنکر اور روڑے ملائے جاتے ہیں۔ غذاﺅں میں حرام کیمیکل ملائے جاتے ہیں۔

اصلی گھی، شہد حتیٰ کہ لال مرچ تک خالص نہیں مل پاتی۔ان گنت اشیا میں ملاوٹ ہو رہی ہے، جس میں انسانوں کی صحت داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔ملاوٹ کی وجہ سے ہی لوگ مہلک امراض میں مبتلاءہورہے ہیں ۔

تاہم اب علاج اور ادویات میں بھی ملاوٹ ہی ہے ۔ملاوٹ کے اس ناسوری دور میں عام آدمی کہاں جائے ؟سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔حکومت کو کم ازکم کھانے پینے کی چیزوں میں کی جانی والی ملاوٹ کا نوٹس لینا چاہیے ۔نقلی کو اصل کے نام پر فروخت کرنے والے تاجروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنی چاہیے ۔

کشمیری زعفران کو جس طرح جعلی زعفران سے محفوظ رکھنے کے لئے ’جی آئی ٹیگنگ ‘میں لایا گیا ۔اسی طرح دیگر چیزوں پر بھی ٹیگنگ ہونی چاہے ،اس میں مرکزی حکومت کا رول اہم بنتا ہے ،کیوں کہ ملک میں ملاوٹ کو روکنے کے لئے نہ صرف ٹیگنگ کی ضرورت ہے بلکہ سخت قوانین بنانے کی بھی ضرورت ہے ۔

جموں وکشمیر میں ملاوٹ کو روکنے کے لئے مخصوص ادارے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹاسک فورس کی تشکیل بھی ضروری ہے ۔معاشرے کو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک رکھناحکومت کی ہی ذمہ داری ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img