تحریر:شوکت ساحل
گزشتہ روز میں نے سرینگر سے پلوامہ تک کا سفر کیا ۔یوں تو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ سرینگر سے پلوامہ اور پلوامہ سے سرینگر واپسی کا سفر کر چکا ہوں ۔30.3کلومیٹر مسافت والا یہ سفر ’مسافر ٹیکسی ‘ میں ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے، لیکن اب اس سفر کے لئے کم سے کم دو سے اڑھائی گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت درکار ہے ۔گزشتہ روز میرا سرینگر سے پلوامہ اور پھر واپسی کا سفر انتہائی دلچسپ ،شیریں اور تلخ تجربے سے بھر پور رہا ۔چونکہ میرا سفر ہنگامی نوعیت کا تھا ،اس لئے آٹو میں ڈلگیٹ سرینگر پہنچ گیا ،یہاں بیس منٹ انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اب یہاں جنوبی کشمیر کے چار اضلاع شوپیان ،پلوامہ ،اننت ناگ اور کولگام کے لئے کوئی مسافر ٹیکسی (گاڑی) نہیں ملے گی بلکہ پلوامہ یا اننت ناگ جانے کے لئے سرینگر کے مضافاتی علاقہ پانتھ چوک پہنچنا ہوگا ،جہاں آپ کو مسافر ٹیکسی ملے گی اور پانتھ چوک تک آپ کو منی مسافر بس میں سفر کرنا ہوگا ۔مزید معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ پرتاپ پارک لالچوک سرینگر کے نزدیک واقع ٹیکسی اسٹینڈ سے پلوامہ کے لئے مسافر ٹیکسی مل سکتی ہے ۔چونکہ پہلے ہی عرض کر چکا ہوں میرا یہ سفر ہنگامی نوعیت کا تھا ،اس لئے ڈلگیٹ سے میں نے پرتاپ پارک تک پھر آٹو میں ہی سفر کیا ۔یہاں واقع ٹیکسی اسٹینڈ سے کچھ مسافر ٹیکسیاں جنوبی کشمیر کے لئے نکل رہی تھیں ۔قریب قریب پونا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد پلوامہ کے لئے مجھے مسافر ٹیکسی ملی اور میرا سفر شروع ہوا۔سفر شروع ہونے کے ساتھ ہی ڈرائیور اپنے ساتھی ڈرائیور سے فون پر بات کرنے لگا ۔یکطرفہ گفتگو سننے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ واپسی کے بعد مسافر ٹیکسی پانتھ چوک تک ہی ملے گی ۔یہ گفتگو سننے کے بعدمیں ذہنی طور اس سفر کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تیار ہوگیا ۔ویسے بھی انسان کوکسی بھی ہنگامی نوعیت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ،کیوں کہ سفر کے دوران آپ کو کبھی بھی کسی بھی ہنگامی نوعیت کی صورت ِ حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ،آپ کو گاڑی چھوڑ کر پیدل سفر کرنا بھی پڑ سکتا ہے۔ ڈرائیور سے مزیدگفتگو کرنے کے بعد اتنا تو معلوم ہوگیا کہ نظام بدل چکا ہے ۔ویسے یہاں کب کیسے ،کس وقت اور کس طرح نظام بدلتا ہے ،یہ کوئی نہیں جانتا ہے ،کیوں کہ کل کے فیصلے اگلے روز بدل جاتے ہیں ۔کسی بھی گاڑی کو سڑک پر اترنے کے لئے ’پرمٹ ‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت ِ جموں وکشمیر ہی یہ ’پرمٹ‘ جاری کرتی ہے ۔وادی کشمیر میں سڑکوں پر چلنے والے ہر طرح کے پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی حکومت ِ جموں وکشمیر نے ’پرمٹ ‘ جاری کئے ہیں ۔پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام پہلے ہی بدنظمی کا شکار ہوچکا ہے ،یہاں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے ،اسکی بہت ساری وجوہات ہیں اور ان میں سڑکوں کی تنگ دامنی ، من مانی اور منتخب بس اڈے نہ ہونا بھی شامل ہے ۔مسافر گاڑیوں کے لئے اڈے بنانا یا اسکے لئے جگہیں فراہم کرنا حکومت اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے ۔کیوں کہ ٹرانسپورٹروں اور مسافروں (دونوں ) سے ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں اور ٹیکسز کا صحیح استعمال ہونا یا کرناعوام کا بنیادی حق ہے ۔شہر سرینگر کے تجارتی مرکز یا قلب لالچوک کے مضافاتی علاقوں میں بس اڈے قائم کرنے کا فیصلہ اور شہر کو بدترین ٹریفک جام سے چھٹکارہ دلانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات صحیح ہیں ،لیکن تجارتی مرکز لالچوک کو مسافر ٹرانسپورٹ سے محروم کرنے کا فیصلہ کسی بھی صورت درست تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔مولا نا آزاد روڑ کو پہلے ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے شجر ِ ممنوع قرار دیا گیا ۔کیوں؟ اب مسافر ٹیکسیوں کو لالچوک میں داخلے کو شجر ممنوع قرار دینے کا فیصلہ،سمجھ سے بالاتر ،کیا اس طرح کے فیصلہ جات سے بد نظمی کا شکار پبلک ٹرانسپورٹ کو درست سمت دی جا سکتی ہے ؟۔اگر کووڈ بحران سے متاثرہ منی مسافربس ٹرانسپورٹروں کو فائدہ پہنچا نے کے لئے یہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ،تو فیصلہ درست تصور کیا جاسکتا ہے ،لیکن جہاں تک کووڈ متاثرین کا تعلق ہے ،تو اسکی زد میں جملہ ٹرانسپورٹر آئے ہیں ۔شہر کے تجارتی قلب لالچوک میں مسافر اسٹینڈز کے تصور کو ختم کرنے کا فیصلہ کسی بھی طور درست ثابت نہیں ہوسکتا ہے ۔نظام میں تبدیلی ضروری ہے ،لیکن کسی ایک چولہے کوگرم کرنے کے لئے دوسرے چولہے کو ٹھنڈا کرنے کی منصوبہ بندی ناقص اور خانہ پوری کرنے کے مترادف ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر لالچوک میں مسافر گاڑیوں کے لئے اسٹینڈ یا اڈے موجود ہیں؟ ،تو وہاںتک گاڑیوں کی رسائی دونوں اطراف سے دینا پبلک ٹرانسپورٹ کی کل سیدھی کرنے کے لئے ناگزیر ہے ۔یکطرفہ گاڑیوں چلنے کی اجازت دینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔اگر لالچوک اور اسکے گرد نواح میں واقع اسٹینڈز سے جنوبی کشمیر یا شمالی کشمیر کے اضلاع کے لئے مسافر ٹیکسیاں دستیاب ہیں ،تو واپسی پر کیوں نہیں ؟،یہاں پھر گاڑیاں کیسے اور کب پہنچتی ہیں ؟اس کا سوال کا جواب ضرور الجھن میں ڈالتا ہے ۔فیملی کے ساتھ سفر کرنے کے لئے جو سفر ایک گاڑی میں سوار ہوکر آسان ہوتا تھا ،اب وہی سفر کئی گاڑیاں بدلنے کے بعد کرنا انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے ۔بچوں کو پہلے ایک گاڑی سے اُتار کر دوسری گاڑی میں سوار کرنا اور پھر اوﺅر لورڈ تک انتظار کرنا ؟ اذیت ہی ہے ۔اس کا حل تلاش کرنا ہوگا ۔پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات آسان بنانا ،حکومت اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے ۔سفر کو اذیت ناک یا کربناک بنانا صحیح منصوبہ بندی نہیں ،اسکے لئے جامعہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ،نہ کہ خانہ پوری سے بے ہنگم پبلک ٹرانسپورٹ کو درست سمت دی جاسکتی ہے ۔وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ’وی آئی پی ‘ سوچ کو ترک کرکے عام لوگوں کے بارے میں سوچا جائے ،کیوں کہ ہر ایک شہری کے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ نہیں ہے ۔ایسے میںدور اندیشی کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ :دنیا بدل رہی ہے
