ادراک لازمی۔۔۔۔

ادراک لازمی۔۔۔۔

شوکت ساحل

کورونا وائرس کو آج کے دور میں عالمی سلامتی کیلئے اولین خطرہ قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ یہ انسانی جانوں کو نگل رہا ہے ۔منشیات کی وبا اس زیادہ خطرناک ہے ،یہ آہستہ آہستہ زندگیوں کو نگل رہی ہے ۔نشہ آور زیادتی عصر حاضر کا ایک سب سے مشکل اور بڑا مسئلہ ہے ، جس سے مریضوں اور ان کے اہل خانہ پر جذباتی اور معاشی تباہی پھیل رہا ہے ، اور ہر سال کھوئے ہوئے پیداواری ، صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات اور ہماری معیشت پر دیگر اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔۔۔اس وقت پوری دنیا منشیات کے خوفناک حصار میں ہے۔۔۔بالخصوص نئی نسل اپنے تابناک مستقبل سے بے پرواہ ہوکر تیز رفتاری کے ساتھ اس زہر ہلاہل کو قند سمجھ رہی ہے ۔۔۔اب تو سگریٹ وشراب نوشی کی وجہ مجبوری نہیں۔۔۔بلکہ ہم عصروں اور دوستوں کو دیکھ کر دل میں انگڑائی لینے والا جذبہ اشتیاق ہے ۔۔۔جو نوجوانوں کو تباہ وبرباد ۔۔۔ان کے زندگی کو تاریک واندھیر او ر ان کی جوانی کورفتہ رفتہ کھوکھلا کرتاجارہاہے۔۔۔چند سال قبل لگائے گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف تمباکو نوشی کی وجہ سے ہر سال 60 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور مختلف موذی امراض سے دوچار ہوتے ہیں،جن میں سے 80 فصد افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔۔۔ان 60 لاکھ میں سے6 لاکھ افراد وہ ہیں جو خود تو سگریٹ نوشی نہیں کرتے ,لیکن اس کے دھویں کی وجہ سے جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔شراب ،چرس اور گانجے وغیرہ کانشہ کرنیوالے افراد کے اعدادو شمار ان کے علاوہ ہے۔یوں تودنیا میں پانچ سو سے زائد ایسے مرکبات یا مفردات ہیں جنہیں بطور نشہ استعمال کیا جاتا ہے، ان میں شراب، بھنگ، چرس، گانجا، سگریٹ، حقہ، کوکو اور افیون وغیرہ زیادہ معروف ہیں ؛مگر ان سب میں بھی جو شہرت عام تمباکو کو حاصل ہے وہ شاید کسی کو حاصل نہیں ؛کیوں کہ تمباکوسستا،سہل الحصول اور ہر جگہ دستیاب نشہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیابھر میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی مجموعی تعداد ایک ارب سے زائد ہے،جن میں ہر سال تمباکو نوشی کی وجہ سے ایک لاکھ لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں۔تمباکو ،یہ دیگرمنشیات کے استعمال کے لئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتا ہے ، ایک مغربی ماہر نفسیات نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ جو افراد سگریٹ پی سکتے ہیں وہ کوکین اور ہیروئن کے بھی عادی ہو سکتے ہیں اور عموماً ایساہی ہوتاہے ،پہلے پڑیا،پھرپان ،پھر سگریٹ ،پھر شراب پھر فساد۔۔۔۔۔شراب اوردیگر نشہ آور چیزوں کی بہتات کا ایک سبب ٹی وی پر دکھائے جانے والے مخرب اخلاق پروگرام اور فواحش و منکرات پر مبنی فلمیں ہیں ۔۔۔ چوں کہ شراب نوشی اور کسی نہ کسی شکل میں نشہ خوری کے مناظر تمام فلموں میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔ یہی چیز نوجوانوں میں منشیات کی لت پیداکرنے میں بنیادی کردار اداکرتی ہے۔تاہم وادی کشمیر میں صورت ِ حال مختلف ہے ،یہاں ٹیلی ویژن کے ذریعے نہیں بلکہ ایک سازش کے تحت نوجوان نسل کو منشیات کا عادی بنایا جارہا ہے ۔سگریٹ پیکٹس پر کشمیر کی مہر اور سگریٹ پیکٹ کو کشمیر کا برانڈ قرار دیکر فروخت کرنا سمجھ سے باہر ہے ۔ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں اس طرح کی اشتعاری پالیسی نظر نہیں آتی ہے ،لیکن اس حوالے سے کشمیر میں الٹی گنگا بہتی ہے ۔سگریٹ پیکٹس پر کشمیر کے نام کو استعمال آزادانہ تو کیا جاتا ہے جبکہ حکام خاموشی تماشی بنی ہوئے ہیں ۔پولیس آئے روز چھاپوں کے دوران درجنوں منشیات فروشوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ منشیات اور نشیلی ادویات کی ضبطی کا دعو یٰ کررہی ہے ۔کشمیر میں یہ کاروبار کیسے بام ِ عروج پر پہنچا یہ توجہ طلب معاملہ ہے !۔۔۔بالکل ہے ۔۔۔۔مگر مچھ پولیس کی گرفت میں کیوں نہیں ۔۔۔۔ایک دونشیلی بوتلیں اور چند گرام چرس ادھر سے ادھر لیجانے والوں پر پولیس کی عقابی نظر ہے ،لیکن اِن کے آقااب بھی پولیس کی گرفت سے کوسوں دور ہے ۔اگر ایسا کہے کہ دلی اب بھی دور ہے ۔۔۔تومبالغہ آرائی نہیں ہوگی ۔منشیات کی لت کو روکنے کے لئے قوانین میں ترمیم لانے کی ضرورت ہے کیوں کہ جب تک سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی ،تب سماج سے اس ناسور کاقلع قمع کرنا ناممکن ہے ۔کشمیر کے قدرتی نظاروں اور کشمیر کے نام پر منشیات مصنوعات کی کھلے عام خرید وفروخت لمحہ فکریہ !ہے ،جس کا یہ سوچ کر ادراک کرنا لازمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.