جی آر 8 کے کشمیری بلوں کو آئی سی سی کی منظوری

جی آر 8 کے کشمیری بلوں کو آئی سی سی کی منظوری

سری نگر/  ڈیڑھ برس کی سخت محنت اور تگ و دو بالآخر رنگ لائی اور 29 سالہ فوز الکبیر اپنی کرکٹ بلوں کی جی آر 8 سپورٹس مینو فیکچرنگ کمپنی کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) میں منظور کرانے میں کامیاب ہوگیا۔
عمان کرکٹ ٹیم کے دو کھلاڑیوں نے سال2021 میں کھیلے جانے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے ایک میچ کے دوران اس کمپنی کے بنائے گئے جی آر 8 بلوں کو استعمال کیا۔
فوز الکبیر نے یو این آئی کے ساتھ اپنے گفتگو میں کہا کہ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی جب سال2021 کو کھلے جانے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے 19 اکتوبر کو بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے گئے ایک میچ کے دوران عمان کے دو کھلاڑیوں نسیم خوشی اور بلال خان نے میری کمپنی کے بلے استعمال کئے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں میری کمپنی میں بنائے جانے والے کرکٹ بلے ’سلیکس البا‘ کے معیار کے برابر ہیں۔
اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے واکے فوز الکبیر نے کہا کہ والد کے انتقال کے بعد مجھے اپنی کمپنی کے بلوں اور دوسرے چیزوں کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرنے میں سات برس لگ گئے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد مرحوم عبدالکبیر نے سات برس قبل جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے سنگم علاقے میں جی آر 8 نامی یہ مینو فیکچرنگ یونٹ قائم کیا تھا جس میں کشمیری بید کے درختوں کی لکڑی کے بلے تیار کئے جاتے ہیں۔
موصوف نوجوان نے کہا کہ آئی سی سی میں اپنی کمپنی کی مصنوعات خاص کر بلوں کو رجسٹر کرانے کے لئے مجھے ان کو تیار کرنے لئے استعمال کئے جانے والے تمام مٹیریل کو پیش کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ مواد دوبئی پہنچانا پڑا جہاں آئی سی سی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’آئی سی سی کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد کوئی بھی بین الاقوامی کھلاڑی اس برانڈ کو استعمال کر سکتا ہے‘۔
فوز نے کہا کہ عمان کے کھلاڑی نسیم خوشی اور بلال خان ہمارے بلے استعمال کرنے پر مطمئن بھی تھے اور کافی خوش بھی تھے۔
انہوں نے کہا کہ عمان کے کھلاڑیوں نے صرف ہمارے بلے ہی استعمال نہیںکئے بلکہ ہمارے ہیلمٹ، گلوز اور پیڈس کو بھی استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمان سے ہمیں ایک بڑا آرڈر بھی ملا ہے جس میں 60 کرکٹ بلے شامل ہیں جنہیں ہم ارسال کر رہے ہیں۔
موصوف نوجوان نے کہا پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دو کھلاڑیوں شاداب خان اور حسن علی نے بھی ہمیں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے دوران اپروچ کیا اور جی آر 8 کے بلے استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
ان کا کہنا تھا: ’سری لنکا، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، سکاٹ لینڈ اور آسٹریلیا نے بھی ہمیں اپروچ کیا ہے اور ہم ان کے لئے بلے تیار کر رہے ہیں‘۔
کرکٹ بلوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے فوز الکبیر نے کہا کہ کرکٹ بلے در اصل دنیا میں دو ہی جگہوں میں بنائے جاتے ہیں جن میں ایک انگلینڈ ہے۔
انہوں نے کہا: ’آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بلے بنائے جاتے ہیں لیکن ان کے لئے لکڑی انگلینڈ سے در آمد کی جاتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا: ’کرکٹ بلے کھلاڑی کی پوزیشن کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں اوپنرس کے لئے الگ قسم کے بلے ہوتے ہیں، مڈل آرڈر بلے بازوں کے لئے الگ اور ہارڈ ہٹنگ بلے بازوں کے کے لئے الگ بلے ہوتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ پیچ کے مطابق بھی الگ الگ بلے استعمال کئے جاتے ہیں۔
موصوف نوجوان نے کہا کہ کشمیر میں بلے تیار کرنے کے کم سے کم چار سو یونٹ قائم ہیں لیکن ہمارے بلے برانڈ بلوں کی فہرست میں نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر سے خام مواد کو جالندھر، اتر پردیش بھیجا جاتا تھا جہاں اس مواد کے بلے تیار کئے جاتے تھے اور وہ ان کو اپنے نام سے فروخت کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرونی مینو فیکچرر کمپنیاں یہ باتیں پھیلا رہی تھیں کہ کشمیر میں تیار کئے جانے والے بلے گلی کرکٹ کھیلنے کے لئے ہی استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
فوز نے کہا کہ والد کے انتقال کے بعد میں نے اپنے بھائی نیاز الکبیر نے اپنی اس کمپنی کو فروغ دینے کی ٹھان لی اور میں نے ان ممالک کا دورہ کرنا شروع کیا جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور دیگر خلیجی ممالک کا سفر کیا ہر جگہ مجھے یہی کہا گیا کہ کشمیری بلے گلی کرکٹ کھیلنے کے لئے ہی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’ہم اپنی کمپنی کے بلوں کے فروغ کے لئے اپنے ملک کے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کرنے کی مالی طاقت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ ان کی کروڑوں روپیے کی فیس ہے‘۔
موصوف نوجوان نے کہا کہ ہمیں ملک کی مختلف ریاستوں سے بھی اچھی تعداد میں آرڈرس ملتے ہیں کئی ایسے کھلاڑی ہیں جو ہمارے بلے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دوبئی سے بھی بہت بڑا آرڈر ملا ہے جنہیں ہم کرکٹ کے لئے استعمال کیا جانے والا سارا مواد ارسال کر رہے ہیں۔

یو این آئی

Leave a Reply

Your email address will not be published.