سنہرے ہاتھ ۔۔۔۔

سنہرے ہاتھ ۔۔۔۔

شوکت ساحل

وادی کشمیر اپنے دلفریب اور دلکش نظاروں کے ساتھ ساتھ دستکاری صنعت کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک الگ اور منفرد پہنچا ن رکھتی ہے ۔ دنیا بھر میں وادی کشمیر کا نام شال سازی کی صنعت میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ تاہم شال سازی کے ساتھ ساتھ اس جنت نظیر وادی کے باشندے ایسے ہنر و فنون سے وابستہ ہیں جن کی ابتدا وادی کی تخلیق ہی سے ہوتی ہے۔ اسی طرح وادی کشمیر میں قالین بافی کی صنعت نے ایک الگ پہنچان بنائی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ہنروفنون سے وابستہ ہے۔ اس طرح نہ صرف خواتین مشغول و مصروف ہو گئی ہیں بلکہ انہیں معقول آمدن کا ذریعہ حاصل ہو گیا ہے۔ڈی این صراف حکومتِ کشمیر کے ایک سرکاری ملازم رہ چکے ہیں۔ اپنی تحقیقی کتاب ”آرٹس اینڈ کرافٹس، جموں اینڈ کشمیر“ میں بتاتے ہیں کہ پچاس کی دہائی میں جب وہ سری نگر میں ڈائریکٹر انڈسٹریز تھے، انہوں نے کشمیری نادار بچیوں کو قالین بافی کا ہنر سکھانے کے لئے باقاعدہ ایک سکول کا اجرا کیا تھا۔ اس پر اگرچہ قدامت پسندوں نے ناک بھوں چڑھائی تھی اور وہ قدرے متذبذب تھے لیکن آج سیکڑوں خواتین مختلف فنون اوردستکاریوں سے منسلک ہیں اور اپنا اور اپنے گھروں کا خرچ چلا رہی ہیں۔ روایتی طور پر قالین بافی اور دیگر فنون مردوں کے کرنے کے کام تھے۔ اس حوالے سے اب بھی ان کی اکثریت ہے تاہم عورتیں بھی اس فن میں قابل ذکر مقام بنا چکی ہیں۔ تب سے اب تک خواتین اپنی جمالیاتی حِس کی بنا پر ہنرو فنون کے ہر شعبے میں نماںیاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ قالین بافی، شال سازی، نمدہ اور گبّا اور رفل اور پٹو کی تیاری میں خواتین اپنا حصہ بٹا رہی ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ نمدہ اور گبّا ایک ہی چیز ہیں لیکن نمدہ پر کڑھائی کی جاتی ہے جبکہ گبّا پر رنگین کپڑوں کے ٹکڑے ٹانکے جاتے ہیں۔کڑھائی اور سوزن کاری جسے رومن’سوئی کے ذریعے پینٹنگ بنانا‘ کہتے تھے، میں بھی خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ سوزن کاری کشمیر میں سب سے بڑی گھریلو صنعت ہے۔ کپڑے کی بہت سی اقسام،چمڑے، کھالوں اور کینوس پر کی جانے والی کڑھائی کی خاص مانگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں کی جانے والی سوزن کاری وادی کے قدرتی حسن و جمال کے ہر پہلو کا عکس لئے ہوتی ہے۔اسی طرح پیپر ماشی کشمیر کی ایک مقبول عام صنعت ہے۔ پیپر ماشی ایک فرانسیسی لفظ ہے۔ پانی میں کوٹے ہوئے کاغذ کے گودے سے بنائی جانے والی اشیا پر رنگین، خوبصورت بیل بوٹے اور نقش و نگار ابھارے جاتے ہیں۔ زیورات اور ظروف سازی میں خواتین نے گو پیش رفت نہیں کی لیکن کانگڑی کی ب±نائی اور پھیرن سِینے میں وہ پیش پیش ہیں۔ کانگڑی اور پھیرن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ موسم سرما میں جب برفباری اور یخ بستہ ہوائیں وادی میں اپنا راج قائم کرتی ہیں تو کانگڑی اور پھیرن ہی لوگوں کے کام آتے ہیں۔الغرض یہ کہ کشمیرکے طول و عرض میں موجود یا پائے جانے والی گھریلو صنعتوں، دستکاروں اور ہنر مندوں نے اس کے ثقافتی نقشے کو خوشنما اور عالی شان بنا دیا ہے۔ ان صنعتوں نے نہ صرف ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے ہوئے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے صدیوں پرانی تہذیبوں اور اس سے جڑی روایات محفوظ ہوگئی ہیں۔سنہ2019 میں جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے صدیوں پرانی اور شہرہ آفاق کشمیری دستکاری مصنوعات کے فروغ اور ان مصنوعات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز، فلپ کارٹ اور ایموزون کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔حکومت کے اس فیصلے کے زمینی سطح پر کتنے بہتر نتائج سامنے آئے ،اس پر اب بھی ایک سوالیہ لگ ہوا ہے ۔حکومت کو اپنے فیصلے پر ایک جامعہ رپورٹ منظر عام لانی چاہیے ،تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ کتنے دستکار ،صنعت کار اور خاص پر گھر یلو خواتین مستفید ہوئیں ،جن کی با اختیاری کے بلند بانگ دعوے آئے روز کیے جا رہے ہیں ۔ عوام کو ثبوت کیساتھ بتانا پڑے گا کہ گزشتہ برسوں کے دوران کتنی حصولیا بیاں حاصل کی گئیں ۔کیوں کہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.